دہشت گرد گروہوں سے مراسم خود پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں: امریکہ

فائل

امریکہ نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر ملک کے اندر کارفرما دہشت گرد گروپوں کے ساتھ روابط بند نہیں ہوتے تو پاکستان اپنے علاقے کا کنٹرول گنوا بیٹھے گا، جو ’’حلقے اور اثر و رسوخ‘‘ کے اعتبار سے پنپ رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے یہ انتباہ ایسے وقت جاری کیا ہے جب امریکہ اور پاکستان باہمی تعلقات میں حائل بداعتمادی کے معاملے میں بہتری لانے کے لیے نئے سرے سے سفارتی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ ہمسایہ افغانستان میں امن کو فروغ دینے کے لیے ’’مشترک بنیاد‘‘ تلاش کی جائے۔

ٹلرسن نے منگل کے روز واشنگٹن میں کہا کہ ’’ہم پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے خواہاں ہیں، تاکہ اُن کی سرحدوں کے اندر بھی دہشت گردی کا انسداد ہو، لیکن اس کے لیے پاکستان کو حقانی نیٹ ورک اور دیگر کے ساتھ اپنے تعلقات بدلنے کے عمل کا آغاز کرنا ہوگا‘‘۔

امریکی قیادت والا فوجی اتحاد افغان قومی دفاع اور سلامتی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) کی مدد کر رہا ہے، تاکہ پھر سے سر اٹھانے والی طالبان کشیدگی پر کنٹرول پایا جا سکے۔

حقانی نیٹ ورک کے اتحادی سرکش اور لیڈر پاکستان میں قائم مبینہ ٹھکانوں سے حملوں کی منصوبہ سازی کرتے ہیں، جس میں اُنھیں ہمسایہ ملک کے جاسوسی کے ادارے کی مدد حاصل ہے۔

ٹلرسن نے توجہ دلائی کہ ’’پاکستان نے بہت ساری دہشت گرد تنظیموں کو اپنے علاقوں کے اندر محفوظ ٹھکانوں کی اجازت دے رکھی ہے، اور یہ تنظیمیں سائز اور اثر و رسوخ کے اعتبار سے پنپ رہے ہیں‘‘۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اُنھوں نے پاکستانی قائدین کو خبردار کیا ہے کہ یہ دہشت گرد گروپ کابل سے توجہ ہٹا کر اسلام آباد کو ہدف بنانے کا سوچ سکتے ہیں۔

ایسے میں جب ٹلرسن کے اس بیان پر باضابطہ ردِ عمل سامنے نہیں آیا، حکومتِ پاکستان کے ایک سینئر اہل کار نے امریکی دعووں کو بے بنیاد کہہ کر، اُنھیں مسترد کیا ہے۔

اہل کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’گذشتہ تین سال کے دوران، انسدادِ دہشت گردی کی ہماری کارروائیوں کے نتیجے میں پاکستانی سرزمین پر موجود اِن دہشت گرد گروپوں کا مؤثر طور ہر قلع قمع کر دیا گیا ہے؛ جب کہ 200000 سے زائد ہماری فوجیں افغانستان کے سرحدی علاقوں پر ابھی تک تعینات ہیں، تاکہ حاصل کردہ کامیابیوں کو مستحکم کیا جا سکے‘‘۔

پاکستانی حکومت نے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی عہد کر رکھا ہے، جو افغان تشدد سے واسطہ رکھتے ہوں، اگر امریکی حکام پاکستان کے ساتھ ’’قابلِ عمل‘‘ انٹیلی جنس کا تبادلہ کریں۔

ٹلرسن نے منگل کے روز اس بات کا عندیہ دیا کہ امریکہ ایسی اطلاعات کا تبادلہ کر سکتا ہے، چونکہ اُسے پاکستان کے استحکام کے بارے میں حقیقی تشویش لاحق ہے۔

اُن کے بقول، ’’ہم اُن کے ساتھ ایک مثبت انداز سے کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ اطلاعات کا تبادلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوں۔ لیکن، ہم صورت حال کو جوں کی توں رہنے کے حامی نہیں، جہاں دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان کے اندر محفوظ ٹھکانے جاری رکھنے کیا اجازت ہو‘‘۔

امریکی وزیر دفاع جِم میٹس نے اس ماہ کے اوائل میں پاکستان کا دورہ کیا جہاں اُنھوں نے پاکستانی قائدین پر بھی زور دیا کہ وہ ملک میں کارفرما دہشت گرد گروپوں کے خلاف اپنی کوششیں دوگنا کر دیں۔ اُنھوں نے پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ افغانستان میں امن عمل کو فروغ دینے کے سلسلے میں اپنا اہم کردار ادا کرے، تاکہ اس تنازعے کو ختم کیا جا سکے۔

میٹس کے دورے کے بعد، اسلام آباد میں تقریر کرتے ہوئے، وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اُن کے ملک نے مثالی قربانیاں دی ہیں، جب کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کو فروغ دینے کے حوالے سے پاکستان تمام ممکنہ کوششیں کر رہا ہے۔

آصف کے بقول، ’’افغانستان میں امن ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم تقریباً اُن تمام مقامات اور فورم پر موجود ہوتے ہیں جہاں سے ہم افغانستان میں امن کے حصول کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ ہماری جانب سے یہ شرکت مکمل سچائی اور عزم کی غماز ہے‘‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں جاری مخاصمت معیشت میں بہتری لانے اور وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی کوششوں میں حائل ہو رہی ہے۔

وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ ’’میرا خیال ہے کہ افغانستان کے بعد، اِس خطے کے امن میں پاکستان کو سب سے زیادہ دلچسپی ہے۔‘‘