پاکستان کرکٹ بورڈ نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے نت نئے تجربات کر رہا ہے۔ ڈومسٹک لیگز کے بعد پاکستان سپر لیگ کے انعقاد سے جہاں نئے ٹیلنٹ کو ٹیم میں شامل کیا گیا وہیں اب بورڈ کے نئے سربراہ رمیز راجا نے کرکٹ ٹیم کو مشکل کنڈیشنز سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ملک میں 'ڈراپ ان پچز' کا تصور پیش کیا ہے۔
یہ پچز پہلے ہی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں استعمال ہو رہی ہیں لیکن اب پاکستان کرکٹ بورڈ ملک میں ان پچز کو متعارف کرنے کا خواہش مند ہے۔
پاکستان نے مقامی کرکٹ کی تجدید کے لیے پہلے ہی ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کر کے اس کی جگہ آسٹریلیا کی طرز پر ریجنل کرکٹ کا اسٹرکچر متعارف کرایا تھا۔
چیئرمین پی سی بی رمیز راجا بارہا اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کے کھلاڑیوں کو آسٹریلوی کرکٹرز کی طرح کھیلنا ہو گا۔ ان کے بقول 'ڈراپ ان پچز' سے جہاں قومی ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کو مدد ملے گی وہیں ڈومیسٹک کرکٹرز کو بھی اپنے ٹیلنٹ کو نکھارنے کا موقع ملے گا۔
چیئرمین پی سی بی کے مطابق 37 کروڑ کی لاگت سے کراچی اور لاہور میں دو 'ڈراپ ان پچز' بنائی جائیں گی اور ان پچز سے کھیل کو مزید فروغ ملے گا۔
پی سی بی کے مطابق ڈراپ ان پچز کے لیے سرمایہ کار کمپنی 'عارف حبیب گروپ' سے ایک معاہدہ بھی ہوا ہے جس کے تحت ایک پچ کراچی کے علاقے نیا ناظم آباد میں لگائی جائے گی جب کہ دوسری پچ لاہور میں بنائی جائے گی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ 'ڈراپ ان پچز' کا کام 2022 تک مکمل کر لیا جائے گا۔
ڈراپ ان پچ کیا ہے؟
ڈراپ ان پچ دراصل ایسی پچ ہے جو گراؤنڈ سے باہر تیار کی جاتی ہے جس کے بعد اسے ہیوی مشین یا کرین کے ذریعے گراؤنڈ میں پچ کی جگہ نصب کر دیا جاتا ہے۔
اس پچ کی تیاری کے لیے پہلے ایک اسٹیل کا ڈھانچہ تیار کیا جاتا ہے جس کے اندر کالی مٹی ڈال کر اسے خوب دبایا جاتا ہے جس کے بعد اس پر گھاس کی تہہ لگائی ہے۔
یہ پچ عام پر طور پر 24 میٹر طویل، تین میٹر چوڑی اور 20 سینٹی میٹر اونچی ہوتی ہے اور اس کی تیاری میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔
اس پچ کی خاص بات یہ ہے کہ اسے کسی بھی گراؤنڈ میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
یہ پچز آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ، ایڈیلیڈ اوول سمیت نیوزی لینڈ کے آکلینڈ اور ویلنگٹن کرکٹ اسٹیڈیم میں استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ ان پچز کو بالنگ کے لیے سازگار سمجھا جاتا ہے۔
آسٹریلیا میں رگبی سیزن کا آغاز ہوتا ہے کہ تو میدان سے 'ڈراپ ان پچز' کو نکال کر اس کی جگہ مٹی بھرنے کے بعد اس پر گھاس لگا دی جاتی ہے۔ اس طرح 'ڈراپ ان پچز' کی مدد سے کرکٹ کے میدان کو دہرے مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آسٹریلیا کے کرکٹ گراؤنڈ واکا کے کیوریٹر جان میلے نے پہلی مرتبہ 70 کی دہائی میں 'ورلڈ سیریز کرکٹ' کے لیے ڈراپ ان پچ بنائی تھی۔ اس سیریز کا اہتمام آسٹریلیا کے مشہور سرمایہ کار کیری پیکر نے کیا تھا۔
ان پچز سے فاسٹ بالرز کو ایکسٹرا باؤنس ملتا ہے وہیں اسپنرز کے لیے بھی یہ گیند پر ایکسٹرا ٹرن دینے میں مددگار ہوتی ہیں۔
'ڈراپ ان پچز' پر کئی کرکٹرز تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور انہیں ٹیسٹ کرکٹ کے معیار کو متاثر کرنا بھی قرار دیتے ہیں۔
ڈراپ ان پچز کی خاص بات یہ ہے کہ اگر ان پر ٹیسٹ میچ کھیلا جائے تو میچ کے ابتدائی دو روز یہ بالرز کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے لیکن کھیل کے تیسرے روز اس پر بیٹنگ کرنا آسان ہوجاتا ہے اور کھیل کے چوتھے اور پانچویں روز بڑے اسکور کے ہدف کا تعاقب آسان ہو جاتا ہے۔
آسٹریلیا کے برسبین کرکٹ گراؤنڈ نے 2005 میں ڈراپ ان پچز کے استعمال سے انکار کر دیا تھا۔