ایران کے ساتھ کشیدگی؛ 'پاکستان نہیں چاہے گا کہ مغربی سرحد پر تناؤ بڑھے'

پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے جہاں عالمی ردِعمل سامنے آ رہا ہے وہیں دونوں ہمسایہ ممالک کے مستقبل کے تعلقات پر بھی بات ہو رہی ہے۔

ایران کی جانب سے منگل کی شب بلوچستان کے ضلع پنجگور میں کارروائی کے بعد جمعرات کی صبح پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے سیستان بلوچستان میں مبینہ طور پر شدت پسند تنظیموں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔

یہ معاملہ بھی موضوعِ بحث ہے کہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اب کیا کریں گے؟ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی اس کشیدگی کے باعث متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے دو طرفہ تجارت بند ہے جب کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کا اثر بھی تجارت پر پڑ رہا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'پاکستان ایران سے تعلقات مزید خراب نہیں کرنا چاہے گا'

بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو مزید نہیں بگاڑیں گے اور اب سفارتی سطح پر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں شروع ہوں گی۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائسنز (لمز) میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ افغانستان کی طرح پاکستان اور ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگائی جا رہی ہے جس سے لامحالہ حالات بہتر ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سرحد کے اطراف کچھ ایسے عناصر سرگرم ہیں جو پاکستان اور ایران کے تعلقات میں خرابی چاہتے ہیں۔

اُن کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی حدود کا تو تنازع نہیں ہے، معاملہ صرف دونوں اطراف سرگرم دہشت گردوں کا ہے۔

'اُمید ہے تعلقات میں مزید تناؤ نہیں آئے گا'

دفاعی اُمور کے تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں مزید تناؤ نہیں آئے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اب بھی کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ کشیدگی مزید بڑھے۔

ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کو سرحد کے اطراف ایک دوسرے کو مطلوب دہشت گردوں سے مسئلہ ہے، یہ ایسا معاملہ ہے جو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔

لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین اسٹیڈیز کے اُستاد پروفیسر ڈاکٹر امجد مگسی کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری خطے کے لیے بھی اہم ہے جس میں چین کا فیکٹر بھی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

تین ملکوں پر حملوں سے مسلمان دنیا کے درمیان یکجہتی کونقصان پہنچا

اُن کے بقول ایران میں چاہ بہار بندرگاہ اور بلوچستان میں گوادر پورٹ چین کے لیے اہمیت رکھتی ہیں، لہذٰا چین نہیں چاہے گا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید خراب ہوں۔

ڈاکٹر رسول بخش رئیس کی رائے میں موجودہ صورتِ حال میں دیکھنا یہ ہے کہ ایران کس طرح اپنا ردِ عمل دیتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب ایران نے پہل کی اور پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی تو پاکستان نے ایک دو دِن انتظار کیا کہ ہو سکتا ہے کہ ایران کی حکومت معذرت کرے، لیکن اس کے برعکس ایرانی وزرا کی جانب سے جارحانہ بیانات دیے گئے۔

کیا ایران کے ساتھ سرحد پر بھی بھارت جیسی صورتِ حال ہو سکتی ہے؟

اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ دونوں ملک سرحد پر گشت بڑھا سکتے ہیں اور دونوں اطراف میں سرحد کو بہتر طور پر بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تو تعلقات میں فی الحال بہتری کی کوئی اُمید نظر نہیں آ رہی، افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں، لیکن اس کی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول جہاں تک ایران سے تعلقات کی بات ہے تو اُسے مزید خراب نہیں ہونے دینا چاہیے تاکہ ایک بارڈر تو پرسکون ہو۔

SEE ALSO:

وہ 'عسکریت پسند' تنظیمیں جو پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کا باعث بنیںپنجگور میں ایرانی حملہ؛ مقامی آبادی میں خوف و ہراس، تاجر بھی پریشان'پاکستان اور ایران کی کشیدگی بڑھی تو بھارت بھی متاثر ہو گا'

حسن عسکری کے بقول پاکستان کے سول اور عسکری حکام کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایران کے ساتھ سرحد پر بھی بھارت کی طرح کشیدگی رہے۔

ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات بھی ہیں، اگر دونوں طرف کشیدگی رہی تو یہ بھی متاثر ہوں گے۔

پاک، ایران تعلقات کی تاریخ

سینٹر آف ساؤتھ ایشین اسٹیڈیز کے مطابق ایران دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ اِسی طرح 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد وہاں کی حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا تھا۔

پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان نے 1949 میں ایران جب کہ 1950 میں شاہ آف ایران نے پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔ اِسی طرح پاکستان اور ایران نے 1950 میں ایک دوستانہ معاہدے (فرینڈ شپ ٹریٹی) پر دستخط کیے تھے۔