Sadia Asad reports for VOA Urdu Radio and Web from Washington
نو برس کی عمر میں ان کی آواز نے پنجابی موسیقار غلام احمد چشتی کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی، جنہوں نے نعتیں، غزلیں اور لوک گیت خاص طور پر اللہ وسائی کے لیے کمپوز کیے
اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے انتہاپسند رویوں کی نفی کی ضرورت ہے، جس کے لیے ہمیں اپنے نظام تعلیم میں اصلاحات لانا ہوں گی ۔۔۔ عظیم سجاد
شہزاد رضاکے بقول ہم بہت سے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ فلاں بہت اچھا تھا، لیکن امجد صابری واقعی بہت ہی اچھے انسان تھے۔
’ یہ فارمولا فلم نہیں، بلکہ ایک نیا تجربہ ہے یہ ایک کیفیت کو پیش کرتی ہے اس میں میر کے حالات زندگی نہیں بلکہ ان کی زندگی میں پیش آنے والے کچھ واقعات کو موضوع بنایا گیا ہے‘
گلالئی نے کہا ہے کہ اصل تبدیلی تب آئے گی جب نوجوان خواتین خود اپنے حقوق اور برابری کے لیے آواز اٹھائیں گی۔
جمیل الدین عالی، شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نقاد، پلے رائٹر، مضمون نگار، کالم نویس اور ایک معروف دانشور بھی ہیں۔
وینا ملک نے کہا ہے کہ اُنھوں نے کمرشل فلموں سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم وہ فلمی دنیا کو مکمل طور پرخیرباد نہیں کہیں گی
سید نور نے بتایا کہ وہ بہت صاف گو، بے باک اور کھرے انسان تھے۔ جو اچھا لگتا صاف بتا دیتے اور جو ناپسند ہوتا اسے بھی صاف الفاظ میں کہہ دیتے
اپنے پراجیکٹس کے لیے نیویارک سے کراچی جانا تھکا دینے والا سفر ہے مگر کام مکمل کرنے کے بعد واپسی بہت پرسکون لگتی ہے۔ نامور ڈائریکٹر کی وائس آف امریکہ سے گفتگو
فائزہ نے عمیرہ احمد کی تحریر اور سکینہ سموں کی ڈائریکشن میں بنے ڈرامے ’’وجود لاریب‘‘ سے اداکاری کا سفر شروع کیا۔ اس کے بعد انھوں نے کئی ہٹ ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
نوے منٹ دورانئیے کی یہ فلم ایک غریب لڑکی کی ماڈل بننے کی خواہش اور تگ و دو کے گِرد گھومتی ہے
اُن کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی محفل میں اپنے جوتے اتار دیا کرتیں اور ننگے پیر پھرا کرتیں۔ واپسی پر اکثر ہی جوتے گم ہو جایا کرتے اور انہیں ننگے پیر گھر آنا پڑتا
سنہ 1935میں نور جہاں نے کے۔ڈی ۔مہرہ کی فلم ’پنڈ دی کڑی‘ سے اداکاری کا آغاز کیا۔ اُس کے بعد، فلم ’مصر کا ستارہ‘ میں اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی گیتوں کو اپنی آواز بھی دی۔ سنہ 1937 میں بننے والی فلم ’ہیر سیال‘ میں ہیر کےبچپن کا کردار ادا کیا
’تو نے کہا نا تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں، آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ‘
وحید مراد نے 115اردو، آٹھ پنجابی، اور ایک پشتو فلم میں کام کیا اور اُنھیں پاکستانی فلموں کا چاکلیٹ ہیرو کہا جاتا تھا