میڈیا مالکان کی بادشاہ گر بننے کی خواہش نے کام خراب کیا، میڈیا بزنس میں آنے والوں کا رول ماڈل لینڈ مافیا کا ڈان ہے
چار پانچ خاندانی گویے ہیں جنھیں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ نیوز چینلوں میں برائلر جنریشن آف میڈیا پرسنز کام کر رہی ہے۔ آزادی صحافت ڈھونڈنے والے اپنی عینک کا نمبر بدلوائیں
افواج پاکستان کے ترجمان نے ملک دشمن قرار دیا، ’نیکٹا‘ نے ’تھریٹ لیٹر‘ میں نام دیا، اب نوائے وقت گروپ نے خدا حافظ کہہ دیا
اکثر خبر نہیں چھپتی۔ چھپ جائے تو سیکورٹی ادارے گرفتار کرلیتے ہیں۔ جنگجو دھمکیاں دیتے ہیں۔ خبر حساس ہو تو قتل کردیا جاتا ہے
میڈیا اداروں کی مالی مشکلات کا سبب اینکر پرسنز کی بڑی تنخواہیں ہیں، ایک وقت آئے گا کہ ان کی تنخواہیں کم کرنی پڑیں گی
امینہ سید کو عہدے سے ہٹادیا گیا ہے اور آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے نئے سربراہ ادبی میلے میں دلچسپی نہیں لے رہے۔
کرن راؤ سمیت بولی ووڈ کی 11 فلم ساز خواتین کی می ٹو مہم کی حمایت، عامر خان نے ہراساں کرنے کے ملزم ڈائریکٹر کی فلم چھوڑ دی
جب تک ریگل چوک، لکشمی چوک، حسین آگاہی اور قصہ خوانی میں اخباری کارکنوں کے جلوس نہیں نکلیں گے، حالات نہیں بدلیں گے
یہ کوئی راز نہیں کہ آئی ایس پی آر کے لوگ میڈیا کی مائیکرو منیجمنٹ کرتے رہے ہیں، مزاحمت ضروری ہے چاہے پانچ لوگ کریں
میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا مالکان سے ملاقات میں میڈیا کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا، حکومت کو پرواہ نہیں، مجیب الرحمان شامی
بقول اُن کے، مشکوک سرمائے والے چینلوں کے ذریعے میڈیا انڈسٹری کے ڈھانچے کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔
سمیع ابراہیم کے بقول نیوز چینل کہتے ہیں کہ وہ مالی مشکلات سے دوچار ہیں لیکن ان کی آمدنی اور اخراجات سے یہ موقف درست نہیں لگتا۔
خبریں اور کالم روکنے میں میڈیا گروپس کے مالکان کی مصلحتیں آڑے آتی ہیں، رضا علی عابدی کی وائس آف امریکہ سے گفتگو۔
غازی صاحب نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ اتنے برس میں نے اس پیشے میں گزارے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم جہاں سے چلے تھے، وہیں کھڑے ہیں بلکہ پیچھے کی طرف جاتے رہے ہیں
نامور صحافی اور اینکرپرسن کے بقول، نئے نیوز چینلوں کا آنا کاروباری سمجھ بوجھ کے مطابق نہیں۔ اسپانسر خسارہ برداشت کے لیے تیار رہتے ہیں
ایجنسیاں سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس دو دھاری تلوار کا انھیں خود نقصان ہو سکتا ہے: بزرگ صحافی محمد ضیا الدین
اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا کے خلاف منصوبہ بنایا، حکومت بات کرنے کو تیار نہیں، عدلیہ سے امید نہیں رہی، افضل بٹ
"فیکا نے ضیا کے مارشل لا دور میں آزادی اظہار کی لڑائی لڑی ہے۔ آج اخبار میں کارٹونسٹ کو جو جگہ دستیاب ہے، اس میں فیکا کا بڑا کردار ہے۔"
کارٹون مسترد ہونا معمول بن گیا ہے۔ پاکستان میں کارٹونز کے حوالے سے پہلے جتنی آزادی تھی، اب نہیں رہی
میرے اسٹوڈیو میں ایسی چیزوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جو ہمارا معاشرہ برداشت نہیں کرسکتا
مزید لوڈ کریں