رسائی کے لنکس

اقتصادی راہداری منصوبے پر قوم پرستوں اور حزب مخالف کے تحفظات برقرار


تاہم کانفرنس میں شریک وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کہتے ہیں کہ حکومت تمام تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن اس منصوبے کو سیاسی رنگ دے کر متنازع بنانا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا

پاکستان کی حزب مخالف اور خصوصاً قوم پرست جماعتوں کی طرف سے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے لائحہ عمل پر تحفظات اور اعتراضات موجود ہیں اور اتوار کو اسلام آباد میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی طرف سے اس معاملے پر کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

کانفرنس میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن سمیت ملک کی تقریباً سب ہی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔

46 ارب ڈالر کے اس منصوبے کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے جنوبی مغربی ساحلی شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کا جال بچھایا جانا ہے لیکن قوم پرست اور حزب مخالف کی جماعتوں کا موقف ہے کہ حکومت اس میں پنجاب کو ترجیح دیتے ہوئے مبینہ طور پر دیگر صوبوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔

کانفرنس کا انعقاد کرنے والی جماعت کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے کا اعلان ہونے کے بعد سے جن تحفظات نے سر اٹھایا تھا وہ بدستور دور نہیں کیے گئے اور ان اعتراضات کے ہوتے ہوئے یہ منصوبہ قابل عمل ہو بھی گیا تو اس کے درکار ثمرات حاصل نہیں ہو سکیں گے۔

"بی این پی (مینگل) سمجھتی ہے کہ ہمارا مسئلہ روٹ اور راہداری سے حل نہیں ہوگا جب تک ہمیں ہمارا حق حاکمیت نہیں دیا جاتا ہمیں ہماری زمین کا مالک نہیں سمجھاجاتا اس کے نفع نقصان اور مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتا میرا خیال ہے کہ یہاں راہداری نہیں بن سکے گی اور نہ وہ کامیاب ہو گی"۔

تاہم کانفرنس میں شریک وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کہتے ہیں کہ حکومت تمام تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن اس منصوبے کو سیاسی رنگ دے کر متنازع بنانا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔

"35 ارب ڈالر توانائی کے جو منصوبے ہیں اس میں سے 7.1ارب ڈالر بلوچستان میں 11.5 ارب ڈالر سندھ کے لیے ہیں گویا توانائی کے شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری سندھ میں جارہی ہے اس کے بعد بلوچستان میں جارہی ہے اس لیے اس منصوبے کو پنجاب کاریڈور کہنا زیادتی ہوگی تو شاید اس میں سیاست زیادہ ہے اور حقیقت کم ہے۔ ہم ان کے ساتھ بات کریں گے اور اس چیز کو واضح بھی کریں گے اور مسلسل ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہر لحاظ سے جو تحفظات ہیں انہیں دور کریں گے کیونکہ یہ قومی منصوبہ ہے۔"

جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے عہدیدار احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بلا شبہ پاکستان اور خطے کے لیے قسمت بدل دینے والا منصوبہ ہے جو کہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس پر اعتراضات کو افہام و تفہیم سے دور کیا جائے۔

" حکومت کی طرف سے واضح کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ حقائق اسی کے پاس ہیں اور حقائق کو پورے پس منظر میں حکومت ہی واضح کر سکتی ہے اور حکومت ہے ان کے سوالوں کے جواب دے سکتی ہے۔۔۔دوسری طرف جو سیاسی جماعتیں ہیں بدقسمتی سے ان کے ہاں (اس ضمن میں) فہم محدود ہے۔ اس طرح کے تکنیکی معاملات کو سمجھنا مجھے لگتا ہے کہ سیاسی قیادت کے پاس کچھ کمی واقع ہوئی ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنے تھنک ٹینکس بنائیں جو ان چیزوں پر تحقیق کرے اور پھر اس پر گفتگو ہو۔"

ادھر چین کے سفارتخانے سے جاری ایک بیان میں بھی پاکستانی حکومت پر یہ زور دیا گیا ہے کہ وہ اس منصوبے سے متعلق مختلف حلقوں کے اختلافات کو دور کرے۔ بیان میں اس امید کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان کی متعلقہ جماعتیں باہمی رابطوں اور تعلقات کو مضبوط کرتے ہوئے اقتصادی راہداری منصوبے پر اپنے اختلافات کو ختم کریں گی۔

XS
SM
MD
LG