رسائی کے لنکس

کراچی کے کچرے پر سیاست مسئلے کا حل نہیں


کراچی کے زیادہ تر علاقے میں جا بجا کوڑا کرکٹ اور کچرے کے انبار نظر آتے ہیں۔
کراچی کے زیادہ تر علاقے میں جا بجا کوڑا کرکٹ اور کچرے کے انبار نظر آتے ہیں۔

کراچی میں عوامی مسائل بالخصوص کچرے اور صفائی ستھرائی کے مسائل پر سیاست کوئی نہیں بات نہیں ہے، لیکن اس میں نئی توانائی اس ماہ کے شروع میں ہونے والی برسات اور پھر اس کے پیدا شدہ اثرات نے ڈال دی ہے۔ شہر سے برسراقتدار جماعتوں کی جانب سے الزامات اور پھر جوابی الزامات کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔

پیر کے روز محرم الحرام کے مقدس مہینے کے لیے جاری اجلاس کے بعد میئر کراچی صحافیوں کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ ایک صحافی شجاعت قریشی کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ کچرا نہ اٹھانے اور اختیارات کے معاملے پر بلاوجہ سیاست کی جارہی ہے۔ ان کے خلاف شہر میں چاکنگ کی جاتی ہے حالانکہ ان کی ٹیم بہترین کام کر رہی ہے۔

اس موقع پر ہی انہوں نے مصطفیٰ کمال کو ’پراجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج‘ تعینات کرنے کا اعلان کیا اور یہ بھی کہا کہ انہیں میونسپل سروسز کے تمام تر اختیارات بھی دیے جائیں گے۔ وسیم اختر نے یہ اعلان مصطفیٰ کمال کی جانب سے ان پر کی جانے والی کڑی تنقید اور پھر تین ماہ کے اندر شہر کو کچرے سے صاف کرنے کے دعوے پر کیا تھا۔

سابق میئر کراچی اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال
سابق میئر کراچی اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال

ایسے میں سید مصطفیٰ کمال نے چیلنج قبول کرتے ہوئے رات گئے میونسپل کمشنر اور ڈائریکٹر فنانس بلدیہ عظمٰی کراچی کو طلب کر لیا۔ تاہم وہ تو نہ آئے لیکن انہوں نے وہیں ایک دھواں دار پریس کانفرنس ضرور کر ڈالی اور میئر کو ناکام قرار دیا۔

اور پھر صبح ہی میئر وسیم اختر نے مصطفیٰ کمال کے ارادوں کو شاید بھانپتے ہوئے انہیں دیا گیا اعزازی ’ڈائریکٹر گاربیج‘ کا عہدہ واپس لے لیا۔

نوٹی فیکیشن واپس لینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے میئر کے دستخطوں سے جاری خط میں کہا گیا ہے کہ مصطفیٰ کمال کو رضاکارانہ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا جس کی بناء پر انہیں فوری طور پر معطل کیا جاتا ہے۔

حالیہ بارشوں کے بعد کراچی کے گلی کوچوں میں پانی کھڑا ہو گیا۔
حالیہ بارشوں کے بعد کراچی کے گلی کوچوں میں پانی کھڑا ہو گیا۔

ایسے میں صوبہ سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کیسے خاموش رہ سکتی تھی۔ صوبائی حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے اسے ڈرامے بازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ میئر کے نوٹی فیکیشن کے قانونی پہلو اپنی جگہ، لیکن اصل بات یہ ظاہر ہوئی کہ معاملہ اختیار کا نہیں بلکہ ان کے بقول نیت کا ہے۔

ترجمان سندھ حکومت نے میئر کراچی کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ کوئی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ مرتضیٰ وہاب نے میئر کراچی وسیم اختر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ بلدیہ عظمیٰ کو چند برسوں میں دیے گئے 41 ارب روپوں کا آڈٹ کرایا جائے گا۔

لیکن کراچی کی سیاست اور بلدیاتی امور پر نظر رکھنے والے افراد چند روز میں تیز ہوتی لفظی گولہ باری کو شہر کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔

میئر کراچی وسیم اختر
میئر کراچی وسیم اختر

جامعہ اردو کے شعبہ ابلاغ عامہ میں استاد اور صحافی ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ میئر کی جانب سے مصطفٰی کمال کو ڈائریکٹر گاربیج کا عہدہ دینا اور پھر ان سے یہ عہدہ واپس لینا ایک غیر سنجیدہ عمل ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے اس شہر کے مسائل حل کرنے میں کوئی سنجیدہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کوڑا کرکٹ کا مسئلہ گلی محلے کا مسئلہ تھا، لیکن اسے ایک قومی مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ ان کے خیال میں بنیادی طور پر خامی بلدیاتی نظام کی ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی نے عددی اکثریت کی بناء پر صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا جس میں طاقت اب بھی صوبائی وزراء یا وزیر اعلیٰ کے پاس ہے جب کہ بلدیاتی ادارے بے اختیار ہیں۔ جب تک اس میں ضروری ترامیم نہیں کی جاتیں، مسائل جوں کے توں رہیں گے۔

ان کے خیال میں وفاقی حکومت کو بھی سندھ حکومت کی مدد کرنا چائیے تاکہ کراچی کے مسائل حل کیے جا سکیں لیکن فی الوقت اس میں سنجیدگی اور نیک نیتی کا فقدان نظر آتا ہے۔

ادھر شہری انفراسٹرکچر کے ماہر اور جامعہ این ای ڈی کے ممتاز پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد کا کہنا ہے کہ کراچی کے کچرے کے مسائل پر جاری بحث کے پیچھے اختیارات کی ایسی تقسیم کارفرما ہے جس نے مسئلے کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔

ڈاکٹر نعمان احمد کا کہنا تھا کہ ویسٹ مینجمنٹ یا کچرے کو مناسب انداز سے ٹھکانے لگانے کے نظام کو بار بار تبدیل کیا جاتا رہا۔ پہلے یہ ذمہ داری بلدیہ سے لے کر ضلعی میونسپل کارپوریشنز کو دی گئی اور پھر بلدیہ عظمیٰ کے اوپر صوبائی حکومت کے ماتحت سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بنا دیا گیا۔ جس سے اداروں کی حاصل شدہ استعداد کار بھی ختم ہو گئی۔

بارش کے بعد کراچی کی ایک شاہراہ
بارش کے بعد کراچی کی ایک شاہراہ

انہوں نے بتایا کہ ویسٹ مینجمنٹ کے شعبے میں ورلڈ بینک اور ایشیئن ڈیولپمنٹ بینک نے 80 اور 90 کی دہائی میں یہاں کافی سرمایہ کاری کی جس کے نتیجے میں ان اداروں کی استعداد کار میں اضافہ بھی دیکھا گیا اور اس کے ساتھ ملازمین کو اس سے متعلق تکینکی شعبے میں ٹریننگ بھی ملی۔ لیکن اب بلدیاتی اداروں کو پھر سے فعال کرنے کے بعد ان تمام اداروں کے پاس کوئی مشترکہ پلیٹ فارم نہیں جہاں بیٹھ کر ان مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔

ماہرین کے مطابق کراچی کی صفائی ستھرائی کے مسئلے سمیت دیگر مسائل حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شہر میں یونیٹی آف کمانڈ ہو، کیونکہ مختلف ادارے ایک ہی نوعیت کا کام کرتے ہیں تو اس میں سیاسی ارتعاش پیدا ہوتا ہے جو شہر کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے اور دوسرا ان مسائل کے حل کے لیے لفاظی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے ٹھوس سرمایہ کاری کی بھی اشد ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG