رسائی کے لنکس

پلوامہ حملے سے متنازع شہریت بل تک، بھارت کے لیے 2019 کیسا رہا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں 2019 کے دوران اہم واقعات رونما ہوئے۔ فروری میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہونے والے خود کش حملے سے شروع ہونے والی ہنگامہ خیزی سال کے اختتام پر متنازع شہریت بل کے خلاف مظاہروں تک جاری رہی۔

اس دوران بھارتی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے علاوہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ بھی شہ سرخیوں میں رہا۔

اس کے علاوہ پارلیمانی انتخابات، آسام این آر سی، ایودھیا فیصلہ اور شہریت ترمیمی قانون کی منظوری بھی 2019 کے بڑے واقعات میں شامل رہے۔

پلوامہ خود کش حملہ

14 فروری کو جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا۔ جس میں 40 جوان ہلاک ہو گئے۔ برسراقتدار جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے پارلیمانی انتخابات میں اس کا خوب ذکر کیا جس سے اس کو انتخابی فائدہ بھی پہنچا۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے اس حملے کے بارے میں شکوک و شہبات کا اظہار کیا گیا۔ لیکن حکومت اس واقعے کی تحقیقات سے گریز کرتی رہی۔ البتہ حکومت اور بی جے پی نے شک کا اظہار کرنے والوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کہی۔

بھارت نے اس حملے کے لیے پاکستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیم جیش محمد پر الزام عائد کیا۔ اور 26 فروری کو بھارتی فضائیہ نے مبینہ طور پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے بالاکوٹ میں واقع جیش کے ٹریننگ سینٹر پر فضائی حملہ کیا۔

بھارت کا دعویٰ تھا کہ اس میں بڑی تعداد میں دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ لیکن وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ ایک بار پھر اپوزیشن نے شکوک و شہبات کا اظہار کیا۔ اور ہلاکتوں کے ثبوت مانگے۔ ایک بار پھر ایسے لوگوں کو ملک دشمن، غدار اور پاکستان کا حامی کہا گیا۔

14 فروری کو پلوامہ میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا۔ (فائل فوٹو)
14 فروری کو پلوامہ میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا۔ (فائل فوٹو)

پاکستان نے اس کارروائی میں ہلاکتوں کی تردید کی۔

پاکستانی فضائیہ نے اس کے اگلے روز ہی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) عبور کر کے بھارتی افواج کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ فضائی لڑائی کے دوران ایک بھارتی مگ 21 طیارہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں گرا۔ جس کے زندہ بچ جانے والے پائلٹ ابھی نندن کو بعدازاں بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔

پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی

گزشتہ سال بھارت میں پارلیمانی انتخابات کا سال رہا۔ مبصرین کے مطابق پلوامہ حملہ، بالاکوٹ کارروائی، قوم پرستی اور پاکستان مخالفت کے ایشوز نے انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچایا۔

پانچ مراحل میں ہونے والے انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان 23 مئی کو کیا گیا۔ جس میں بی جے پی نے 302 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

حکومت میں دوبارہ واپسی کے بعد بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور پر عمل درآمد کا آغاز کیا۔ حکومت نے طلاق ثلاثہ کا ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جس میں بیک وقت تین طلاقوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

دفعہ 370 کا خاتمہ

سال 2019 کا ایک بہت اہم واقعہ جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے والی دفعہ 370 کا خاتمہ تھا۔ یہ دفعہ جموں و کشمیر کو نیم خود مختاری دیتی تھی۔ لیکن وزیر داخلہ امیت شاہ نے پانچ اگست کو پہلے راجیہ سبھا میں اور اس کے بعد لوک سبھا میں اس دفعہ کے خاتمے کا بل پیش کیا جسے بحث کے بعد منظور کر لیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنا دیے گئے۔

اس سے چند روز قبل سے ہی کشمیر میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے۔ سیاحوں اور امر ناتھ یاتریوں کو واپس بلا لیا گیا۔

بل کی منظوری کے بعد جموں و کشمیر میں لاک ڈاون شروع ہو گیا۔ لوگوں کی آمد و رفت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ انٹرنیٹ اور فون خدمات معطل کر دی گئیں۔ بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔

ان پابندیوں کے دوران سیکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا یا حراست میں لے لیا گیا۔ جن میں تین سابق وزرائے اعلی فاروق عبد اللہ، عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں۔ وہ اب بھی نظر بند ہیں۔

جموں و کشمیر میں اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی۔ یہاں تک کہ بڑی مساجد میں نماز پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ ان پابندیوں کی وجہ سے کشمیر کی معیشت پر برا اثر پڑا اور ذرائع کے مطابق ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

حکومت کے اس اقدم پر پوری دنیا میں رد عمل ظاہر کیا گیا۔ لیکن بھارت کا کہنا ہے کہ یہ اس کا اندرونی مسئلہ ہے اور اس نے جو کچھ کیا ہے آئین کے دائرے میں رہ کر کیا۔ متعدد بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اس اقدم کی مخالفت کی اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔

آسام کے 19 لاکھ شہری غیر ملکی قرار

بھارتی ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کی حتمی فہرست جاری کی گئی۔ جس کے مطابق 19 لاکھ افراد کی شہریت مشکوک ہو گئی۔

اس پر پوری دنیا میں رد عمل ظاہر کیا گیا اور بھارت سے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے مطالبات کیے جاتے رہے۔

نومبر میں بھارت کے خلائی تحقیق کے ادارے اسرو نے چندریان نامی ایک خلائی گاڑی چاند پر بھیجی مگر اس مشن میں وہ ناکام رہا۔ اگر خلائی گاڑی جسے وکرم نام دیا گیا چاند پر اتر گیا ہوتا تو بھارت بھی یہ کارنامہ انجام دینے والے ممالک میں شامل ہو جاتا۔

بابری مسجد تنازع کا فیصلہ

134 سال سے چلے آرہے اس مقدمے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کو دینے اور یہاں مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے ایودھیا کے کسی مناسب مقام پر پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کی بھی ہدایت کی۔

بیشتر مسلمان تنظیموں نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔

عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کی حمایت میں دی گئی بیشتر دلیلوں کو تسلیم کیا اور کہا کہ 1949 میں اس میں خفیہ طریقے سے مورتیاں رکھ دی گئی تھیں۔ بابری مسجد کے نیچے نہ تو رام مندر کا کوئی ثبوت پایا گیا اور نہ ہی کسی مندر کا کوئی ثبوت ملا۔ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔

یاد رہے کہ رام مندر کے حامیوں کی سب سے بڑی دلیل یہی تھی کہ رام مندر کو توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔

مسلم فریقوں کی جانب سے اس فیصلے پر نظرثانی کی متعدد اپیلیں دائر کی گئیں جنہیں سپریم کورٹ نے خارج کر دیا۔

اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست

سال کے اختتام پر ہریانہ اور مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ دونوں ریاستوں میں بی جے پی برسراقتدار تھی لیکن دونوں میں اسے شکست ہوئی۔

ہریانہ میں وہ اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ لیکن اس نے ایک مقامی سیاسی جماعت جے جے پی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کر لی۔

مہاراشٹر میں بی جے پی اور شیو سینا کے اتحاد کو اکثریت حاصل ہوئی لیکن وزیر اعلیٰ کے منصب پر دونوں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ شیو سینا کا اصرار تھا کہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ دونوں جماعتوں کو ڈھائی ڈھائی سال کے لیے ملے جو کہ بی جے پی کو منظور نہیں تھا۔

لہذٰا شیو سینا نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) اور کانگریس کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔ آخر کار ان تینوں جماعتوں نے مخلوط حکومت قائم کر لی۔ اس طرح وہاں بی جے پی اقتدار سے باہر ہو گئی۔

ریاست جھارکھنڈ میں بھی بی جے پی برسراقتدار تھی لیکن دسمبر میں ہونے والے الیکشن میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور کانگریس کے اتحاد کی حکومت بن گئی۔

2019 جہاں پارلیمانی انتخابات کی وجہ سے بی جے پی کے لیے یادگار ثابت ہوا وہیں ریاستوں میں اس کی حکومت سکڑتی گئی۔

شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اور ملک گیر احتجاج

حکومت کی جانب سے دسمبر میں کیا جانے والا ایک بہت اہم فیصلہ شہریت قانون میں ترمیم ہے۔ اس نے پہلے لوک سبھا میں اور پھر راجیہ سبھا میں ایک بل پیش کیا۔

بل میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر جبر کا سامنا کرنے کی وجہ سے بھارت آنے والے غیر مسلموں کو یہاں کی شہریت دینے کی منظوری دی گئی۔

حکومت نے اس زمرے میں ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی اور عیسائی برادری کو رکھا لیکن مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔

دونوں ایوانوں میں گھنٹوں جاری رہنے والی بحث کے بعد یہ بل منظور کر لیا گیا۔ 11 دسمبر کو راجیہ سبھا میں اسے منظور کیا گیا اور 12 دسمبر سے ہی اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

احتجاج کا آغاز جنوب مشرقی ریاستوں ریاست آسام اور تری پورہ سے ہوا۔ وہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ اگر لاکھوں ہندو بنگالیوں کو شہریت دے دی گئی تو وہاں کا آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا اور مقامی ثقافت بھی بری طرح متاثر ہو جائے گی۔

13 دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے ایک مظاہرے کا اعلان کیا لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس نے طلبہ پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل بھی برسائے۔

طلبہ نے 15 دسمبر کو پھر احتجاجی مارچ کا آغاز کیا۔ جس دوران تشدد ہوا اور چار بسیں جلا دی گئیں۔

پولیس کا الزام ہے کہ جامعہ کے طلبہ نے تشدد برپا کیا جبکہ طلبہ اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

اس کارروائی کے خلاف پہلے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس کے بعد دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ علیگڑھ میں پولیس نے طلبہ کے خلاف کارروائی کی جس میں متعدد طلبہ زخمی ہوئے۔

اسی دن سے مذکورہ قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ یہ احتجاج دوسرے ملکوں میں بھی کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون آئین کے خلاف ہے۔ آئین مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ لیکن یہ قانون آئین کے اس بنیادی اصول کے منافی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG