رسائی کے لنکس

کویت میں خواتین کا 'سرِعام یوگا' کرنے کا منصوبہ مسئلہ کیوں بن گیا؟


کویت کی اسمبلی کے اجلاس میں خواتین کی جانب سے یوگا مشق اپنانے کے خلاف قرارداد زیر بحث۔ 8 فروری 2022ء (فائل فوٹو)
کویت کی اسمبلی کے اجلاس میں خواتین کی جانب سے یوگا مشق اپنانے کے خلاف قرارداد زیر بحث۔ 8 فروری 2022ء (فائل فوٹو)

کویت میں خواتین کے حقوق کے سلسلے میں ایک اورجھگڑا اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب ایک یوگا انسٹرکٹر نے اس ماہ کویت کے صحرا میں یوگا کے ایک تفریحی ایونٹ کا اشتہار دیا۔ قدامت پسندوں نے اسے اسلام پر حملہ قرار دیا۔ کئی قانون سازوں اور مذہبی رہنماؤں نے خواتین کے لیے برسر عام یوگا کرنے کو غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئےاس پر ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اور نتیجتاً حکام کو اس پر پابندی لگانے پر مجبورہونا پڑا۔

یوگا پر اٹھنے والا یہ تنازع کویت میں خواتین کے حقوق پر طویل عرصے سے جاری ثقافتی جنگ میں تازہ ترین ہے، جہاں ایک منقسم معاشرے میں خواتین کے رویے کے بارے میں قبائل اور اسلام پسندوں کو بڑھتی ہوئی طاقت حاصل ہے۔

قدامت پسند سیاست دان ابھرتی ہوئی تحریک نسواں کو کویت کی روایتی اقدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں۔

تحریک نسواں کی سرگرم کارکن نجیبہ حیات نے کویتی پارلیمنٹ کے باہر اس مقام سے، جہاں خواتین دھرنا دے رہی ہیں، ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ہماری ریاست اتنی رفتار سے پیچھے کی طرف جا رہی ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ خواتین بڑی تعداد میں اس پارک میں آتی ہیں جہاں دھرنا ہوتا ہے۔ اور آزادی کے لیے نعرے لگاتی ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ حکام مستقل اسےسلب کر رہے ہیں۔

کویت والوں کے لیے یہ ایک ایسے ملک میں پریشان کن رجحان ہے، جو کبھی اپنے عرب پڑوسیوں کے مقابلے میں اپنی ترقی پسندی پر فخر کرتا تھا۔

تاہم حالیہ برسوں میں خواتین نے قدامت پسند خلیجی خطے میں بڑی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ سعودی عرب میں جہاں انہیں پہلے کوئی آزادی حاصل نہیں تھی، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلطان کے دور میں جو عملاً وہاں حکمراں ہیں، بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔

سعودی عرب میں تو گزشتہ ماہ پہلا اوپن ایئر یوگا فیسٹیول بھی منعقد ہوا، جسے سوشل میڈیا پر کویت میں بھی دیکھا گیا۔

کویت میں خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن النود الشارخ کہتی ہیں کہ کویت میں خواتین کے خلاف ہمیشہ ہی ایک ڈھکی چھپی تحریک چل رہی تھی لیکن اب یہ ابھر کر سامنے آ گئی ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران کویتی حکام نے ایک مقبول جم کو بند کردیا تھا، جہاں بیلے ڈانس کی کلاسیں ہوتی تھیں۔ مذہبی راہنماؤں نے توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے پولیس سے خواتین کی ایک اور تفریح گاہ کے منتظمین کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، جسے "ڈیوائن فیمینین" کہا جاتا ہے۔ کویت کی عدالت عالیہ جلد ہی ایک مقدمے کی سماعت کرنے والی ہے جس کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ نیٹ فلیکس پر پیش کی جانے والی پہلی عربی زبان کی فلم پر تنازع کے سبب اس پلیٹ فارم پر ہی پابندی عائد کرے۔

ہمدان الا عظمٰی ایک اسلام پسند ہیں، جنہوں نے بیرونی لوگوں پر عرب ورثے کو تباہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے یوگا کے خلاف تحریک کی قیادت کی۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کویت کی بیٹیوں کادفاع کرنا پس ماندہ ہونا ہے، تو یہ میرے لیے باعث عزت ہے کہ مجھے اس نام سے پکارا جائے۔

مذہبی محرکات کی بنیاد پر کیے گئے متعدد فیصلوں کے سبب ایک ایسے وقت میں کویتی خواتین میں برہمی پائی جاتی ہے جب پارلیمنٹ میں کوئی خاتون رکن نہیں ہے اور غیرت کے نام پر قتل کے بارے میں عوام جذباتی ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کےحوالے سےکویتی خواتین فرح اکبر کیس کا ذکر کرتی ہیں جسے گزشتہ موسم بہار میں ضمانت پر رہا ہونےوالے ایک شخص نے اس کی کار سے گھسیٹ کر اور چاقوؤں کے وار کرکے ہلاک کر دیا تھا، اور جس کے خلاف فرح نے پولیس کے پاس متعدد شکایات درج کرائیں تھیں۔

حالیہ مہینوں میں تحریک کی منتظمین نے جنسی زیادتیوں اور قتل کی دھمکیوں کے باوجود تحریک کو زندہ رکھنے اور آگے بڑھانے کی جدوجہد جاری رکھی ہے۔

گزشتہ برس اس تحریک کے شروع کرانے میں مدد کرنے والی نجیبہ حیات کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کی ساتھیوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ بقول ان کے، ہم باہر جاتے ہیں تو مسلسل روکا جاتا ہے ہراساں کیا جاتا ہے۔

نجیبہ کو یقین نہیں ہے کہ حکومت کویتی خواتین کے لیے کچھ کر سکے گی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہتھیار ڈال دینے کی بھی انہیں کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG