رسائی کے لنکس

امریکی تعلیمی اداروں میں نسلی بنیاد پرترجیحی داخلہ پالیسی ختم


امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کے موقعے پر امریکی شہری واشنگٹن ڈی سی میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر جمع تھے، جنہوں نے ہاتھوں میں 'تنوع، مواقع اور انصاف' کے الفاظ والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ جون 29، 2029
امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کے موقعے پر امریکی شہری واشنگٹن ڈی سی میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر جمع تھے، جنہوں نے ہاتھوں میں 'تنوع، مواقع اور انصاف' کے الفاظ والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ جون 29، 2029

امریکی سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک فیصلے کے تحت اعلی امریکی تعلیمی اداروں میں نسلی تنوع کے اعتبار سے داخلے کے لئے جاری کئے گئے ایفرمیٹو ایکشن کو مسترد کر دیا ہے ، اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ جس پالیسی کے تحت امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے طلباء کو نسلی بنیاد پر جو رعایت مل رہی تھی، وہ ختم کر دی گئی ہے، اور اب اعلیٰ تعلیم کے امریکی اداروں کو اپنے طلباء میں نسلی تنوع پیدا کرنے کے کچھ نئے طریقے ڈھونڈنے ہونگے ۔

'ایفرمیٹیو ایکشن' وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے درخواست دینے والے طلبا کے درمیان نسل، رنگ اور قومیت کی بنا پرامتیاز کو روکا جاتا ہے اور کالجوں میں تنوع کے لیے نسلی بنیاد پر درخواستوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

اس کی موجودہ شکل کا استعمال پہلے پہل صدر کینیڈی کے ایگزیکیٹیو آرڈر کے تحت 1961 میں کیا گیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپنے فوری ردعمل میں کہا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں ایفرمیٹیو ایکشن پروگرام کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو طلباء معیار پر پورے نہیں اترتے انہیں نسل کی بنیاد پر معیار پر پورا اترنے والے طلبا پر ترجیح دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے کالج نسلی تنوع سے مضبوط ہوتے ہیں چنانچہ سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کو حرفِ آخر قرار نہیں دیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا امریکہ ایک نظریہ ہے، امید اورمواقع کا۔ ہمیں آگے بڑھنے کے نئے راستے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ میں امتیاز اب بھی موجود ہے۔

امریکی سپریم کورٹ نے افرمیٹیو ایکشن ختم کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ فوٹو رائٹرزجون 29, 2023
امریکی سپریم کورٹ نے افرمیٹیو ایکشن ختم کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ فوٹو رائٹرزجون 29, 2023

امریکی سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی اکثریت ہے چنانچہ تین کے مقابلے میں چھ کی اکثریت کے اس فیصلے نے ہارورڈ اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا میں جو امریکہ کے قدیم ترین تعلیمی ادارے ہیں، داخلوں کا یہ طریقہ روک دیا ہے۔

صدر جو بائیڈن نے فیصلے کے بارے میں وائٹ ہاؤس سے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ اس فیصلے سے "سختی سے۔۔۔سختی سے" اختلاف کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا،"انہیں اپنا یہ وعدہ ترک نہیں کرنا چاہئیے کہ وہ طلباء تنظیموں میں متنوع پسِ منظر اور ایسے تجربے کو یقینی بنائیں گے جو پورے امریکہ کی عکاسی کرے۔"

فیصلہ سناتے ہوئے امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے کہا کہ ایک طویل عرصے تک امریکہ میں یونیورسٹیز نے غلط طور پر یہ طے کئے رکھا کہ 'کسی فرد کو اس کی بہترین صلاحیت یا تعلیم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی جلد کی رنگت کی بنیاد پر ترجیح دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ 'ہماری آئینی تاریخ اس بے انصافی کو برداشت نہیں کر سکتی'۔

جسٹس کلیرنس تھامس امریکی سپریم کورٹ کے دوسرے سیاہ فام جج ہیں، اور ایک طویل عرصے سے ایفرمیٹو ایکشن کو ختم کرنے کے حامی ہیں، انہوں نے ایک الگ نوٹ میں لکھا ہے کہ یہ فیصلہ یونیورسٹیوں کی ایڈمیشن پالیسیوں کو ویسے ہی دیکھتا ہے، جیسی کہ وہ ہیں، یعنی ، مبہم اور نسلی بنیاد پر دی جانے والی ترجیحات ، تاکہ یقینی بنایا جائے کہ تعلیمی اداروں میں ایک خاص طریقے کا نسلی تنوع پیدا ہو۔

جسٹس سونیا سوٹو مائیرنے , جو ہسپانوی پس منظر رکھتی ہیں، اس فیصلے پر اپنا اختلافی نوٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے عشروں کی مثالی اوراہم پیش قدمی کو ختم کردیا گیا ہے۔

جسٹس تھامس اور سوٹو مائیر دونوں نے، جو یہ واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ افرمیٹو ایکشن نے لا کالج میں ان کے اپنے داخلے میں کردار ادا کیا تھا ، کمرہ عدالت میں اپنے نوٹ پڑھ کر سنائے۔ عام طور پر اختلافی نوٹ سپریم کورٹ میں پڑھ کر سنائے نہیں جاتے۔

فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے پہلی سیاہ فام خاتون جسٹس کیٹانجی براؤن جیکسن نے کہا،"یہ ہم سب کے لیے ایک المیہ ہے"

کیٹانجی براؤن اس فیصلے میں بیٹھی بھی نہیں کیونکہ وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایڈوائیزری گورننگ بورڈ میں شامل ہیں۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کے ریپبلکن اسپیکر کیون میکارتھی نے ٹوئٹ کیا کہ " اب طلباء برابری کے معیار اور انفرادی میرٹ کی بنیاد پر مقابلہ کر سکیں گے۔ اس سے کالج میں داخلے کے عمل کو منصفانہ بنایا جائے گا اور قانون کے تحت مساوات کو برقرار رکھا جائے گا۔"

امریکہ کے دو سابق صدور نے اس بارے میں انتہائی مختلف نکتہ نظر بیان کیا ہے۔

سابق امریکی صدر اوباما نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ"کسی بھی پالیسی کی طرح، ایفرمیٹوایکشن بہترین نہیں تھا۔ لیکن اس نے مشیل اور مجھ جیسے طالب علموں کی نسلوں کو یہ ثابت کرنے کا موقع دیا کہ ہم بھی سب کا حصہ ہیں۔ اب یہ ہم سب پر منحصر ہے کہ ہم نوجوانوں کو وہ مواقع فراہم کریں جس کے وہ مستحق ہیں۔ "

سابق صدر ٹرمپ نے اسے امریکہ کیلئے ایک عظیم دن قرار دیا اور کہا،"ہم تمام تر میرٹ کی بنیاد پر واپس آرہے ہیں۔ اور ایسا ہی ہونا چاہیے!"

واشنگٹن میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہراکٹھے ہونے والے مظاہرین، جون انتیس، دو ہزار تئیس۔ فوٹو اے پی
واشنگٹن میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہراکٹھے ہونے والے مظاہرین، جون انتیس، دو ہزار تئیس۔ فوٹو اے پی

امریکی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ جسے تاریخی قرار دیا جا رہا ہے، جمعرات کو صبح دس بجے کے قریب سنایا گیا۔ اس وقت واشنگٹن ڈی سی میں امریکی سپریم کورٹ کے باہر شہریوں کی بھیڑ جمع تھی۔

ہائی سکول کی ایک طالبہ کیٹ نینالہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے خیال میں کالج میں داخلے کے لئے کسی کی نسل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا درست نہیں۔

ایک اور طالبہ ایلس ویلچ کا کہنا تھا کہ کسی کی نسلی شناخت سے یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اچھا کام کرے گا، اچھا طالبعلم ثابت ہوگا یا کالج کے تعلیمی ماحول میں کامیابی حاصل کرے گا، اور اس بات سے یہ بھی فرق نہیں پڑنا چاہئے کہ کس طالبعلم کو کس کالج میں جانا چاہئے۔

لیکن سپریم کورٹ کے باہر موجود کئی لوگوں کی رائے اس سے مختلف تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے کالج اور یونیورسٹیوں کی خود کو متنوع رکھنے کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔

ریاست اوریگن کے ایک فلاحی تعلیمی ادارے کے ڈائریکٹر کرسٹوفر بینکس اس فیصلے پر افسردہ نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے امریکہ میں نوجوانوں کے لئے مواقعے محدود ہوجائیں گے۔

پولز کے مطابق امریکی شہریوں کی رائے اس معاملے پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ کی تقریبا نصف بالغ آبادی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں رنگ و نسل کی بنیاد پر داخلوں کی مخالف ہے، جبکہ ایک تہائی آبادی اس پالیسی کو اپنائے رکھنے کے حق میں ہے۔

XS
SM
MD
LG