رسائی کے لنکس

اچین: افغان دیہاتیوں کی داعش کے بعد کے منظرنامے پہ نظر


کمانڈر بلال باچا نے دولت اسلامیہ کا متبادل عربی نام ’داعش‘ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ہی نے یہ قبریں کھودی ہیں، تاکہ مقامی لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ داعش کے جنگجو شہید نہیں ہیں۔ اُن کے جسم کو کیڑے مکوڑے کھا رہے ہیں اور بدبو آ رہی ہے‘‘

مقامی پولیس سربراہ نے قبرستان کی جانب اشارہ کیا۔ کئی ایک قبریں کھلی ہوئی تھیں۔

کمانڈر بلال باچا نے دولت اسلامیہ کا متبادل عربی نام ’داعش‘ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ہی نے یہ قبریں کھودی ہیں، تاکہ مقامی لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ داعش کے جنگجو شہید نہیں ہیں۔ اُن کے جسم کو کیڑے مکوڑے کھا رہے ہیں اور بدبو آ رہی ہے‘‘۔

وہ اُس اسلامی عقیدے کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس میں کہا جاتا ہے کہ شہید کی میت خراب نہیں ہوتی اور اُس میں سے ہمیشہ مشک کی سی مہک آتی ہے‘‘۔

کچھ ہی فاصلے پر، ایک دو منزلہ عمارت جو مٹی کے گارے سے بنائی گئی تھی، یہاں دولت اسلامیہ کا قیدخانہ ہوا کرتا تھا، جو اِس وقت خالی ہے۔ مٹی کے ٹیلے اور ملبہ کھڑا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کبھی داعش کے کمانڈر رہا کرتے تھے۔ نیٹو نے زیادہ تر کو بم سے ڈھا دیا ہے۔

مشرقی افغانستان کے صوبہٴ ننگرہار میں ضلع اچین کی وادیِ پیخہ کا علاقہ، جو کبھی داعش گروپ کا مضبوط گڑھ ہوا کرتا تھا؛ سنہ 2015 کے اوائل میں جب شدت پسند گروپ نے زمین ہتھیانا شروع کی، اس کا انداز اس قدر سفاکانہ تھا کہ مقامی لوگ اس سے مقابلہ کرتے ہوئے طالبان کو کم ظالم بتاتے تھے۔ اِسی دوران، کئی لوگ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

بظاہر شنواری قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کے الفاظ میں ’’زندگی اتنی مشکل ہوچکی تھی کہ ہم نے بوریا بستر باندھا اور محفوظ مقام کی جانب بھاگ نکلے۔ ہم تقریباً پانچ ماہ کے بعد واپس آئے ہیں‘‘۔ اُن کے شنواری ہونے کا پتا اُن کے سر پر کپاس کی سفید رنگ کی ٹوپی سے لگایا گیا۔

اِس علاقے کی اکثریتی آبادی شنواریوں پر مشتمل ہے، جنھوں نے داعش کے ہاتھوں بہت مظالم سہے۔ اب وہ نئے سرے سے زندگی کا آغاز کر رہے ہیں۔

لتابند تنگی نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں، بچے، جن میں کم سن بچیاں بھی شامل ہیں، کھیل کود میں مشغول ہیں، وہ باہر سے آنے والوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ کچھ ’وائس آف امریکہ‘ کے فوٹوگرافر کی اوٹ میں جا چھپے، اس کوشش میں کہ یہ دیکھ سکیں کہ کیمرہ سے باہر کا منظرنامہ کیسا نظر آتا ہے۔ ایک برس قبل، یہ منظر سوچنا بھی مشکل تھا۔

راستے میں، خواتین جنھیں داعش کی عمل داری کے دوران گھروں تک محدود کیا گیا تھا، اب اُنھیں سڑک کنارے سبزیوں کی کاشت یا پھر قریبی ندی نالے کی جانب مویشیوں کو لاتے لے جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG