رسائی کے لنکس

افغانستان میں نیٹو کی حکمت عملی کا ایک تجزیہ


جمعے کے روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خود کش بمباری کے کئی حملوں میں کم از کم 17 افراد ہلاک ہوئے اور شہر میں تباہی پھیل گئی۔ اس پس منظر میں اس سوال کا جائزہ پیش ہے کہ کیا افغانستان میں نیٹو کی حکمت عملی کامیاب ہو رہی ہے ۔

لندن کے تھنک ٹینک ،دی رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے میلکم کالمرسMalcom Chalmers کا کہنا ہے کہ افغانستان میں نیٹو کی حکمت عملی بالکل واضح ہے۔ وہ کہتے ہیں’’نیٹو کی اسٹریٹجی یہ ہے کہ افغان حکومت کی ساکھ اور اس کی طاقت میں اضافہ کیا جائے اور اس مقصدکے لیے افغانستان کی زیادہ سے زیادہ آبادی کو افغانستان کی حکومت کے کنٹرول میں لایا جائے اور اس آبادی کو تحفظ اور بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں تا کہ سب لوگ حکومت کی حمایت کرنےلگیں ۔ اس طرح طالبان کی اہمیت روز بروز کم ہوتی جائے گی۔‘‘

صدر باراک اوباما نے گذشتہ سال کے آخر میں افغانستان کے لیے امریکی حمایت کے عزم کا اظہار کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ وہاں مزید 30,000 امریکی فوجیں بھیجیں گے۔ انھوں نےنیٹو کے ارکان پر زور دیا کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ نیٹو کے ملکوں نے مزید سات ہزار فوجی بھیج دیئے اوربات صرف مزیدفوجی بھیجنے پر ختم نہیں ہوئی۔ دو ہفتے پہلے امریکی، برطانوی اور افغان فورسز نے آپریشن مشترک شروع کیا۔ 2001 میں افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد سے اب تک یہ طالبان کے خلاف سب سے بڑی کارروائی ہے۔ افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند سے طالبان کو نکالنے کے لیے 15,000 فوجیوں سے کیے جانے والے اس حملے کی قیادت امریکہ کے پاس ہے ۔

کالمرس کہتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ اس آپریشن کی وجہ سے طالبان کو کابل پر حملہ کرنے کی کُھلی چھٹی مل گئی ہو۔ان کا کہنا ہے’’صدر اوباما نے امریکی فوجوں میں جس بھاری اضافےکا اعلان کیا ہے اور جس پر ابھی پوری طرح عمل درآمد ہونا باقی ہے اس کو شامل کرنے کے بعد بھی نیٹو کی فورسز بہت بڑے رقبے میں پھیلی ہوئی ہیں اور جب کسی مخصوص علاقے میں فوجوں کی بڑی تعدادبھیج دی جاتی ہے، جیسا کہ حال ہی میں ہلمند میں ہوا ہے، تو اس کے نتیجے میں دوسرے مقامات میں خلا پیدا ہو جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کابل پر حملوں میں اس چیز کا بھی دخل ہو۔‘‘

کالمرس کہتے ہیں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ طالبان ان حملوں سے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ فوجی اور سیاسی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس جنگ کا نفسیاتی پہلو بھی ہے ۔وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا حوصلہ پست کرنا چاہتے ہیں۔ وہ افغان حکومت کے ارادے کو کمزورکرنا چاہتے ہیں اور اسے یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ یہ جنگ جیت نہیں سکتی بالکل اسی طرح جیسے نیٹو کا مقصد طالبان کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ انہیں بالآخر شکست ہو گی۔

لندن کے Chatham House International Institute میں تقریر کرتےہوئے پاکستان کے سابق صدرپرویز مشرف نے کہا کہ بین الاقوامی سلامتی کے لیے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقے انتہائی اہم ہیں۔ ہمیں اپنی حکمت عملی میں بیک وقت فوجی، سیاسی اور سماجی و اقتصادی تینوں پہلوؤں کو مد نظررکھنا ہو گا۔ انھوں نے کہا’’ہمیں القاعدہ کو شکست دینی ہے، ہمیں طالبان پر غلبہ حاصل کرنا ہے اور ہمیں افغانستان میں ایک قانونی اور جائز حکومت قائم کرنی ہے ۔میں جانتا ہوں کہ ایسا کہنا آسان ہے اور کرنا مشکل۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ہم چاہتے یہی ہیں ۔‘‘

مسٹر مشرف کہتے ہیں کہ سب کچھ چھوڑ کر افغانستان سے نکل آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کامیابی اب بھی ممکن ہے۔ ’’یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے اگر ہم حوصلے سے کام لیں اور کمزوری نہ دکھائیں۔ اگر ہر کوئی یہ کہے گا کہ ہمیں ایک سال میں یا ڈیڑھ دو سال میں چلے جانا ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اس طرح ہم دشمن کے خیالات اور اس کے حوصلے کو تقویت دیتے ہیں۔‘‘

نیٹو کے دو ملکوں، کینیڈا اور نیدرلینڈ نے فوجوں کی واپسی کی تاریخیں مقرر کر دی ہیں۔ گذشتہ ہفتے ایسی تجاویز پر کہ اس سال کے بعد فوجوں کی تعیناتی میں توسیع کر دی جائے، ڈچ حکومت کو شکست ہو گئی۔ کینیڈا کی فوجیں 2011 کے آخر میں افغانستان کو چھوڑ دیں گی۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ وہ امریکی فوجوں کی تعداد میں ، جولائی 2011 میں کمی کرنے پر غور کریں گے۔

کالمرس کہتے ہیں کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ افغانستان میں نیٹو کی حکمت عملی کامیاب ہو رہی ہے یا نہیں۔ہمیں بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ اس سے کوئی فرق پڑ رہا ہے یا نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے، بغاوت کو ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس نے گذشتہ سال جو زور پکڑا تھا اسے روکنے کے لیے ۔ اگلے سال ہمیں اپنی بالا دستی قائم کرنی ہوگی۔ اگر اتنے زیادہ وسائل کی فراہمی کے باجود ہم افغانستان میں بالا دستی حاصل نہ کر سکے تو پھر کوئی بالکل مختلف راہ اختیار کرنے کے لیے جو دباؤ پڑے گا اس کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

جمعے کے روز افغانستان میں نیٹو کے مشن کو اعتماد کا ووٹ اس وقت ملا جب جرمنی کی حکومت نے مزید 850 فوجی افغانستان بھیجنے کے حق میں ووٹ دیا۔

XS
SM
MD
LG