رسائی کے لنکس

اتحادی افغان جنگ سے تھک چکے ہیں


اتحادی افغان جنگ سے تھک چکے ہیں
اتحادی افغان جنگ سے تھک چکے ہیں

آئندہ چند مہینوں میں افغانستان کے سات شہروں اور علاقوں کی سیکیورٹی کی ذمہ داریوں کی منتقلی، افغان فوج اور پولیس کو شروع کر دی جائے گی۔ ان میں لشکر گاہ نامی ایک ایسا علاقہ بھی شامل ہے جہاں طالبان قابض رہے ہیں ۔ اگلے چند برسوں میں افغانستان میں فوجی مشن کے خاتمے اور سیاسی عمل کے استحکام کی کوششوں میں تیزی لانے کے لیےایک غیر سرکاری بین الا قوامی ٹاسک فورس نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔ تنظیم کا کہناہے کہ افغانستان، امریکہ اور اس کے اتحادی طویل لڑائی سے تھک چکے ہیں اور اس شورش زدہ ملک میں مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کایہ مناسب ترین وقت ہے۔واشنگٹن میں قائم دی سینچری فاؤنڈیشنکی ٹاسک فورس کا کہناہے کہ مجوزہ مذاکرات میں طالبان کی شرکت ضروری ہے ، تاہم اس سے قبل انہیں القاعدہ سے اپنے روابط ختم کرنے ہوں گے۔

واشنگٹن کے ایک غیر سرکاری ادارے دی سینچری فاؤنڈیشن کے تشکیل دیے گئے افغا نستان سے متعلق ٹاسک فورس کے ا راکین کہتے ہیں کہ افغانستان میں لڑنے والے تمام گروپوں اور اتحادیوں میں تھکن کے آثار نمایاں ہیں۔

ٹاسٹک فورس کے لارنس کارب کہتے ہیں کہ صرف افغان ہی اس جنگ سے نہیں تھک گئے، بلکہ امریکی اور ہمارے بہت سے اتحادی بھی تھک گئے ہیں۔ اور اب وہ افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔

ٹاسک فورس کے ممبروں کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اب ہر سطح پر امن مذاکرات کے عمل کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن ٹاسک فورس کے ایک ممبر اور امریکہ کے ایک سابق نائب وزیر دفاع لارنس کارب کے مطابق افغانستان کے تمام گروپوں اور علاقے کے تمام ملکوں کی شرکت پر مبنی کوئی امن معاہدہ آسان نہیں ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس عمل میں شریک تمام ملک اپنے اپنے مفاد کو دیکھیں گے اور ان میں سے بعض کے اپنے نظریات ہیں۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ایک ایسا حل تلاش کیا جائے جو سب کے لیے قابل منظور ہو۔

اس ٹاسک فورس کے ایک سربراہ اور افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سابق خصوصی مندوب لخدر براہمی کہتےہیں کہ افغانستان کے تمام ہمسائے ملک یہ جانتے ہیں کہ افغانستان میں امن معاہدہ ان کے مفاد میں ہو گا۔

ٹاسک فورس کے ایک سربراہ اور افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سابق خصوصی مندوب لخدر براہمی کہتےہیں کہ افغانستان کے تمام ہمسائے ملک یہ جانتے ہیں کہ افغانستان میں امن معاہدہ ان کے مفاد میں ہو گا۔

ان کا کہناتھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ انہیں آمادہ کیسے کریں گے کہ ان کے مفادات محفوظ رہیں گے۔ کہ انہیں کسی معاہدے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ گفتگو کا مقصدہی یہی ہے۔

براہمی کہتے ہیں کہ افغانستان میں کسی بھی گروپ کو ان مذاکرات میں حصہ لینے سے نہیں روکنا چاہیے۔ جبکہ اسی ٹاسک فورس کے ایک دوسرے سربراہ اور سابق امریکی عہدے دار ٹامس پکرنگ کے مطابق ان مذاکرات کی شروعات افغان طالبان کے سربراہ ملاعمر اور کوئٹہ شوریٰ کے دوسرے ارکان کی شمولیت پر گفتگو سے بھی کی جا سکتی ہیں۔

ملا عمر کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس وقت تک مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے جب تک افغانستان میں غیر ملکی فوج موجود ہے۔

لیکن سینچری فاؤنڈیشن کی ٹاسک فورس کے ایک اور رکن اور افغانستان کے لیے امریکہ کے ایک سابق سفیرجیمز ڈابنس کا کہنا ہے کہ طالبان گروپوں کو مذاکرات میں اسی وقت شامل کیا جائے گا جب وہ القاعدہ سے اپنے رابطے توڑ دیں گے۔ ان کا یہ بھی کہناہے کہ القاعدہ کے ساتھ تعلق توڑنے کے بدلے میں طالبان گروپوں کو امن کا وعدہ اور حکومت میں شرکت کا موقع فراہم کرنا ہوگا۔

XS
SM
MD
LG