رسائی کے لنکس

پاکستان میں سیلاب کے ایک سال بعد بھی تباہی کے نقش باقی ہیں


 پاکستان میں گزشتہ سال کے سیلاب سے بلوچستان میں تباہی کا ایک منظر، فوٹو اے پی 29 اگست 2022
پاکستان میں گزشتہ سال کے سیلاب سے بلوچستان میں تباہی کا ایک منظر، فوٹو اے پی 29 اگست 2022

پاکستان کو گزشتہ سال تباہ کن سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی ملک اس کے اثرات سے مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکا ہے ۔ متاثرین کی ایک بڑی تعداد عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہی ہے ، لاکھوں بچے ابھی تک اسکول نہیں جا سکے ہیں اوراکثر جگہوں پر تباہ حال انفراسٹرکچر کے مناظر اب بھی دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کاکہنا ہے کہ لوگ اپنے قصبوں اور دیہاتوں میں واپس آ چکے ہیں۔ اس نے اپنی امدادی کارروائیاں نومبر 2022 میں ختم کر دی تھیں۔ ادارے کے مطابق بحران کے عروج میں لگ بھگ ،80 لاکھ افراد بے گھر ہوئےتھے، لیکن ابھی تک اس بارے میں مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ اب تک کتنے لوگ بدستور بے گھر ہیں یا عارضی پناہ گاہوں میں اپنے دن گزار رہے ہیں۔

عالمی ادارے یونیسیف کے تخمینے کے مطابق سیلاب کے متاثرہ علاقوں میں ابھی تک تقریباً2 کروڑ افراد کو ، جن میں لگ بھگ 90 لاکھ بچے ہیں ، انسانی ہمدردی کی امدادکی بدستور ضرورت ہے ۔

پاکستان کے صوبے سندھ میں سیلاب متاثرین ایک ریلیف کیمپ میں ، فوٹو اے پی 25 اکتوبر 2022
پاکستان کے صوبے سندھ میں سیلاب متاثرین ایک ریلیف کیمپ میں ، فوٹو اے پی 25 اکتوبر 2022

گزشتہ سال کے اس سیلاب سے پاکستان میں کم از کم 1700 لوگ ہلاک ہوئے، لاکھوں مکانات تباہ ہوئے ، ہزاروں ایکٹر وں پر پھیلے ہوئے کھیت اور فصلیں بہہ گئیں اور ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اس دوران ایک ایسا وقت بھی آیا جب ملک کا ایک تہائی حصہ سیلابی پانی میں ڈوا ہوا تھا۔ پاکستانی راہنما اور بہت سے سائنسدان ، موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کو آب و ہوا کی تبدیلی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

گزشتہ سال کے سیلابوں نے ملک کے چاروں صوبوں کو متاثر کیا تھا۔خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو اس کے 34 اضلاع میں سے نصف میں پینے کے صاف پانی کے 800 سے زیادہ نظاموں کو نقصان پہنچا جن میں پائپ لائنز، پانی ذخیرہ کرنے کے تالاب اور کنویں شامل ہیں۔

برطانیہ کے فلاحی ادارے واٹرایڈ نے کہا ہے کہ 2022 میں پاکستان میں آنے والے سیلاب جس پیمانے پر اور جس شدت کے تھے ان سے نمٹنا کسی بھی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو تا۔ لیکن گزشتہ ایک سال میں وہاں کے رہائشی مقامی حکومت کی مدد سے اپنے بہت سے کنووں او ر پانی کے رسدی نظاموں کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور خیبر پختونخواہ میں صورتحال بہتر ہو گئی ہے۔

پاکستان کے سیلاب متاثرین کے ایک کیمپ کا منظر ، فوٹو رائٹرز 30 ستمبر 2022
پاکستان کے سیلاب متاثرین کے ایک کیمپ کا منظر ، فوٹو رائٹرز 30 ستمبر 2022

ادارے کے مطابق مستقبل میں ایسی کسی ہنگامی صورت حال کی پیشگی اطلاع کے لیے حکام نے سات بڑے دریاوں پر پانی کی سطح کی مانیٹرنگ کے لیے وارننگ سسٹم نصب کر دیے ہیں۔ پچھلے سال مون سون سے قبل سیلابی ریلے روکنے کے لیے حفاظتی پشتوں کو مضبوط کیا گیا تھا، جس سے نقصانات کو محدود کرنے میں مدد ملی تھی۔ اور اب سیلاب سے متاثرہ پشتوں کی مرمت کر کے انہیں مضبوط بنا دیا گیا ہے۔

ملک کے سب سے گنجان آباد اور زرخیز صوبے پنجاب میں گزشتہ سال کے سیلاب سے کم ازکم 15 لاکھ ایکٹر پر کھڑی فصلیں متاثر ہوئیں، اور باغات کو نقصان پہنچا۔ آب پاشی کے نظام اور رابطہ سڑکوں کو بھی نقصان پہنچا۔ جس سے کھانے پینے کی چیزوں کی قلت پیدا ہوئی اور ان کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ تاہم سیلابی پانی کے نکاس اور حکومت کی جانب سے بیج اور کھاد کی تقسیم سے زرعی شعبے کو بحال کرنے میں مدد ملی۔

گزشتہ سال کے سیلابوں سےپنجاب بھر میں اناج کے ذخیروں کے ساتھ ساتھ کم از کم ڈیڑھ ملین ایکڑ رقبےپر فصلوں اور باغات کا صفایا ہوا، کھیتوں کو منڈیوں سے جوڑنے والے راستے اور سڑکیں تباہ ہو ئیں ۔ بحران کے عروج پر، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا اور سبزیاں نایاب ہوگئی تھیں ۔ حکومت نے بیج اورکھاد تقسیم کر کے زرعی سیکٹر کو بحال کرنے میں مدد دی ہے۔ لیکن وہاں بنیادی ڈھانچے مثلاً سڑکوں اور پلوں کی ابھی تک مرمت نہیں ہوئی ہے۔

بلوچستان میں سیلاب کے دوران لوگ اپنا سامان ساتھ لے کر جا رہے ہیں ، فوٹو اے پی 5 ستمبر 2022
بلوچستان میں سیلاب کے دوران لوگ اپنا سامان ساتھ لے کر جا رہے ہیں ، فوٹو اے پی 5 ستمبر 2022

سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ سندھ ہے اور وہاں بحالی کی رفتار بھی نسبتاً سست ہے۔ سیلاب سے سندھ میں 40 ہزار اسکولوں میں سے نصف یا تو مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے جس سے 23 لاکھ سے زیادہ بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اور چینی حکومت کے تعاون سے وہاں دو ہزار اسکولوں کی تعمیر نو کی جا رہی ہے۔

سیلاب نے صوبہ بلوچستان میں بھی تباہی پھیلائی جس سے وہاں 81 گرڈ اسٹیشن تباہ ہو گئے اور بجلی کی لائنیں گر گئیں۔ بلوچستان کے اکثر حصوں میں بجلی کے حصول کے لیے سولر پینلز استعمال کیے جاتے ہیں۔ سیلابوں سے مکان گرنے کے نتیجے میں انہیں بھی نقصان پہنچا۔

اگرچہ بحالی کی کوششیں جاری ہیں لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات سے مکمل طور پر نکلنے کے لیے بھاری سرمائے کی ضرورت ہے جس کی فراہمی مالی مشکلات میں گھرے پاکستان کے لیے آسان نہیں ہے۔

(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG