رسائی کے لنکس

مرکز کے بعد اب تمام نظریں پنجاب پر مرکوز


لاہور میں واقع پنجاب اسمبلی کی عمارت کا ایک منظر، فائل فوٹو
لاہور میں واقع پنجاب اسمبلی کی عمارت کا ایک منظر، فائل فوٹو

مرکز کے بعد تمام نظریں پنجاب پر مرکوز ہو گئی ہیں۔ پنجاب کی سیاسی صورت حال پر گزشتہ تین سماعتوں کے بعد عدالتِ عالیہ لاہور نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے

عدالتِ عالیہ لاہور کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹٰی نے صوبہ پنجاب میں قائد ایوان کے انتخاب پر دائر ہونے والی درخواستوں پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ قائدِ ایوان کے انتخاب میں تاخیر سے متعلق حمزہ شہباز نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

منگل کے روز ہونے والی سماعت میں پرویزالٰہی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین کے مطابق کسی بھی آئینی مسئلے کے علاوہ عدالت اسمبلی کےمعاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اسمبلی ایک آئینی فورم ہے۔ اپنے دلائل میں اُنہوں نے کہا کہ اِسی طرح اسمبلی بھی عدالت کے زیرِ التوا کیسوں بارے نہیں پوچھ سکتی۔

دورانِ سماعت ق لیگ کے وکیل عامر سعید راںا نے عدالت میں موقف اپنایا کہ ڈپٹی اسپیکر صاف الیکشن نہیں کرا سکتے۔ اںہوں نے سیکرٹری اسمبلی پر پابندیاں لگانا شروع کر دی ہیں۔ اُنہیں ڈپٹی اسپیکر پر اعتماد نہیں ہے۔

اِس موقع پر حمزہ شہباز کے وکیل اعظم نذٰر تارڑ نے کہا کہ ایسی ہی صورت حال کا سامنا وفاق میں بھی تھا۔ جہاں عدالتِ عظمٰی کو کہا گیا کہ وہ اسمبلی کے معاملات میں مداخلت نہ کریں، لیکن اُنہوں نے آئینی بحران کا حل نکالا ہے اور قومی اسمبلی میں پینل آف چیئرمین کے ذریعے ایوان کے اجلاس کی کارروئی کرائی۔

اِس موقع پر چیف جسٹس محمد امیر بھٹٰی استفسار کیا کہ وزیراعلٰی کے انتخاب پر صاف اور شفاف الیکشن کرانے ہیں تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

جس پر اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ اسمبلی میں چار ارکان آزاد ہیں۔ اُن کی مدد سےالیکشن کرائے جا سکتے ہیں۔


چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام فریق مشترکہ طور پر رائے شماری کرانے کے لیے پریزائیڈنگ افسر مقرر کریں۔

اِس سے قبل11 اپریل کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا تھا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس کس طرح ملتوی ہو سکتا ہے؟ جب قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے مرحلے کا آغاز ہو گیا تو اجلاس ملتوی نہیں ہو سکتا۔

جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی رولز کے مطابق اسپیکر اجلاس ملتوی کر سکتے ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ تبدیل نہیں ہو سکتی۔

عدالت نے فریقن کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی میں نئے قائدِ ایوان کے لیے پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ چوہدری پرویز الٰہی کو پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے امیدواروں کی اسپورٹ حاصل ہے۔ ق لیگ ذرائع کے مطابق اُنہیں 188 امیدواروں کی حمایت حاصل ہے۔

دوسری جانب حمزہ شہباز پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان اور آزاد امیدواروں کے متفقہ امیدوار ہیں اور وہ دو سو ارکان اسمبلی کی حمایت کا دعوٰی کرتے ہیں۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب کی سیاسی صورت حال کو زیادہ دیر تک نہیں روکا جا سکتا۔ تاخیری حربے استعمال کر کے پرویز الٰہی ایک مرتبہ پھر سیاسی غلطی کر رہے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ وفاق میں سیاسی صورت حال کا اثر پنجاب کی سیاست پر پڑ سکتا ہے۔ حزبِ اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف اور اِس کی اتحادی جماعتوں کا پہلے سے سیاسی جھگڑا موجود ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پنجاب کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی پوزیشن کمزور ہے۔ جس کا واضح اندازہ پنجاب اسمبلی کے ووٹنگ کے دن ہونے والے اجلاس میں بھی ہو جائے گا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے باغی ارکان کی وجہ سے پی ٹی آئی کی عددی اکثریت کم ہو چکی ہے۔


سینئر صحافی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت اپنے باغی ارکان کو ڈی سیٹ کرنے یا اُن کے خلاف ریفرینس بھجوانے کا فیصلہ کرتی ہے تو بھی پی ٹٰی آئی کی حمایت کم ہو جائے گی۔ جس کا فائدہ پاکستان مسلم لیگ ن کو ہو گا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید کی رائے میں وفاق اور پنجاب کا تعلق ہے۔ وفاق میں اِس وقت جو سیاسی صورت حال چل رہی ہے یا جو تبدیلی ہوئی ہے اُس کا اثر پنجاب کی سیاست پر بھی پڑنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ شاید پنجاب میں وفاق سے صورت حال مختلف ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی کی کوشش ہے کہ تاخیر اور مذاکرات کرنے سے شاید پی ٹی آئی کے منحرف ارکان واپس آ جائیں۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئےانہوں نے کہا کہ حقیقت کو مدِنظر رکھا جائے تو پرویز الٰہی کو یہ پتا لگ چکا ہے کہ زیادہ دیر یہ چیزیں نہیں چل سکتیں۔ احمد ولید کے بقول پرویز الٰہی نے پہلے ایک سیاسی غؒطی کی جب اُنہوں نے پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، جس کا اظہار وہ خود بھی کر چکے ہیں۔

اِسی طرح پنجاب میں پرویز الٰہی کو اندازہ نہیں تھا کہ ترین گروپ، علیم گروپ اور دیگر گروپ اتنے مضبوط بن جائیں گے کہ وہ اپنی بات پر اڑ جائیں، جس کے باعث پرویز الٰہی ایک مسئلے میں پھنس گئے ہیں۔اُنہیں یہ ادراک ہے کہ اُن سے غلطی ہوئی ہے۔

احمد ولید کے بقول پرویز الٰہی عمران خان کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ لیکن اس کا حل بھی اسلام آباد کی طرح کا نکلنا ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی احمد ولید کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پنجاب پاکستان کی سیاست کا مرکز ہے اور مسلم لیگ ن کی سیاست کا گڑھ ہے۔ اَب چونکہ متحدہ اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف وزیراعظم کے طور پر کامیاب ہوچکے ہیں تو یقیناً اِس کے اثرات پنجاب کی سیاست پر بھی پڑٰیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن کے صوبہ پنجاب میں قائدِ ایوان کے پہلے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی تھے، جن کے کہنے پر عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد پیش کی گئی تھی۔ لیکن بعد ازاں اُنہوں نے کسی اشارے پر اُس وقت کی حکمران جماعت کا امیدواربننا پسند کیا۔ جس کے باعث وہ ایک مختف صورت حال سے دوچار ہیں۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے سلمان غنی نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ وفاق کی سیاسی صورت حال کے بعد پنجاب میں بھی متحدہ اپوزیشن کا امیدوار کامیاب ہو گا۔


احمد ولید سمجھتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل کو ہو یا عدالتی فیصلے کے تحت کسی بھی اور روز ہو ، پنجاب میں بھی قومی اسمبلی کی طرح کارروائی ہو گی اور رائے شماری ہو گی۔

اُن کے بقول پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی ٹس سے مس نہیں ہو رہے، جس کے باعث پرویز الٰہی اتنے پر امید نہیں ہیں جس سے یوں لگتا ہے کہ اُنہیں اندازہ ہو گیا ہے صورتِ حال اُن کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔

احمد ولید کاکہنا ہے کہ اگر عدالت عظمٰی کی طرز پر عدالت عالیہ لاہور کا فیصلہ ووٹنگ کرانے کے لیے آ جاتا ہے تو پنجاب میں جو حکمت عملی پرویز الٰہی بنا رہے ہیں وہ بہتر ثابت نہیں ہو سکے گی۔

سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل سے پہلے ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اُن کے بقول پنجاب کی حکمران جماعت نے نئے قائدِ ایوان کا انتخاب اِس لیے بار بار موخر کیا کیونکہ اُن کے پاس واضح اکثریت نہیں تھی۔

اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ موجودہ سیاسی صورت حال میں پی ٹی آئی کو قدرے شرمندگی کا سامنا ہے جس کے اپنے 184 ارکان ہیں لیکن اُنہیں بغاوت کا سامنا ہے۔انہوں نے پرویز الٰہی کی جیت کو جو کہ اسپیکر بھی ہیں، مشکوک بنا دیا ہے۔

مجیب الرحمٰن شامی کی رائے میں شہباز شریف مرکز میں وزیراعظم ہیں اور اُن کے بیٹے صوبے میں وزیراعلٰی ہیں جس پر لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے۔ جس پر مخالفین اعتراض کرتے رہیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اِس وقت 13رکنی حزبِ اختلاف پر مبنی اتحاد نے مل کر حمزہ شہباز کو قائدِ ایوان منتخب کیا ہے۔ حمزہ قائدِ حزبِ اختلاف بھی ہیں اور ان کا اپنا ایک سیاسی کیرئیر ہےجو قومی سیاست میں نمایاں ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ حمزہ شہباز کے نام پر ن لیگ اور اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے۔ اُن کے بقول ہو سکتا ہے کہ کوئی اور ایسا شخص نہیں ہو گا جو پارٹی پر گرفت رکھ سکے اور معاملات کو آگے بڑھا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ حمزہ شہباز کو قائدِ ایوان بنانے کا فیصلہ پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں نے کیا ہے، جس پر تنقید بھی ہو سکتی ہے۔

خیال رہے اسپیکر پنجاب اسمبلی نے ایوان کا اجلاس 16 اپریل کو طلب کر رکھا ہے۔ اِس سے قبل اسمبلی کا اجلاس رواں ماہ 3 اپریل کو ہوا تھا، جس میں نئے قائد ایوان کا انتخاب ہونا تھا، لیکن ارکان کی ہنگامہ آرائی کے باعث اجلاس کو 16 اپریل تک ملتوی کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG