رسائی کے لنکس

صدر کینیڈی کا قتل اور ’سیکریٹ سروس‘ میں آنے والی تبدیلیاں


Congressman John F. Kennedy, 1947. Public Domain
Congressman John F. Kennedy, 1947. Public Domain

22 نومبر 1963ء کو جب ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں صدر کینیڈی پر گولیاں چلیں، سیکریٹ سروس کے ایجنٹ کلنٹ ہل وہیں موجود تھے۔ وہ اُس دن کا تجزیہ کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں، ’اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ ہم صدر کینیڈی کے تحفظ میں ناکام رہے‘۔

22 نومبر 1963ء کو امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل سے پوری دنیا اور بالخصوص امریکہ سناٹے میں آگیا تھا۔

صدر کینیڈی کے قتل سے امریکی حکومت کی سیکریٹ سروس یا سُراغ رساں ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا تھا۔ سیکریٹ سروس وہ ادارہ ہے جس کا کام امریکی صدر اور ان کے خاندان کی حفاظت کرنا ہے۔ مگر صدر کینیڈی کے قتل اور بعد میں صدر جیرلڈ فورڈ اور صدر رونلڈ ریگن پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کی کوششوں کے بعد سیکریٹ سروس کو امریکی صدر اور ان کے خاندان کی حفاظت کے لیے اپنے طریقہ ِ کار میں بہت سی تبدیلیاں لانا پڑیں۔

22 نومبر 1963ء کو جب ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں صدر کینیڈی پر گولیاں چلیں، سیکریٹ سروس کے ایجنٹ کلنٹ ہل وہیں موجود تھے۔ وہ اُس دن کا تجزیہ کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں، ’اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ ہم صدر کینیڈی کے تحفظ میں ناکام رہے‘۔

سیکریٹ سروس سے ہی تعلق رکھنے والے جیرلڈ بلین جو صدر کینیڈی کے قتل کے روز ریاست ٹیکساس میں ہی موجود تھے، کہتے ہیں کہ صدر کینیڈی پر حملے کے وقت ان کے بچاؤ کے لیے عملہ ناکافی تھا۔

جیرلڈ بلین کے الفاظ، ’1963ء میں ہمارا عملہ 330 ایجنٹس پر مشتمل تھا جبکہ ان میں سے 34 ایجنٹس وائٹ ہاؤس میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے‘۔

1963ء میں سراغ رساں ادارے کے ایجنٹس صدر کے قافلے کے ہمراہ تھے۔ کچھ ان کی گاڑی کے ساتھ چل رہے تھے، کچھ صدارتی گاڑیوں کے قافلے میں بیٹھے تھے۔ مگر سابق سراغ رساں ایجنٹ جیرلڈ بلین کہتے ہیں کہ اس وقت ایجنٹس کو آپس میں ابلاغ کی سہولت میسر نہ تھی۔

جیرلڈ بلین کے مطابق، ’اس وقت ہمارے پاس ریڈیوز موجود نہ تھے۔ ہم ہاتھ کے اشاروں سے بات کرتے تھے۔ ہمیں تصویریں دیکھ کر چیزیں یاد رکھنا پڑتی تھیں اور اپنا کام کرنے کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا تھا‘۔

’دی کینیڈی ڈیٹیل‘ نامی کتاب لکھنے والی لیزا میک کیوبن نے اپنی کتاب کے لیے جیرلڈ بلین سے بات چیت کی۔ لیزا کہتی ہیں کہ صدر کینیڈی کے قتل کے بعد سراغ رساں ادارے کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آئیں اور سیکریٹ سروس کے لیے زیادہ فنڈز مختص کرنے پر زور دیا گیا۔

لیزا میک کیوبن کے الفاظ، ’صدر کینیڈی کے قتل سے انہیں اندازہ ہوا کہ یہ مشن کتنا ضروری ہے اور تبھی کانگریس کو اس بات پر راضی کیا جا سکا کہ سیکریٹ سروس کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں۔ اس سے قبل وہ کئی سالوں سے زیادہ فنڈز اور سٹاف میں اضافے کی بات کر رہے تھے مگر کوئی شنوائی نہ تھی۔ سیکریٹ سروس کو اندازہ تھا کہ کم وسائل میں امریکی صدر کی نگہبانی مشکل کام ہے‘۔

کلنٹ ہل سیکریٹ سروس سے وابستہ رہے اور ادارے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنے اور انہوں نے اس ادارے میں بہت سے تبدیلیاں ہوتی دیکھیں جیسا کہ کھلی گاڑیوں میں سفر پر پابندی، ایجنٹس میں اضافہ، زیادہ فنڈز اور ایکدوسرے کے ساتھ ابلاغ کے لیے بہتر ذرائع۔

کلنٹ ہل 1975ء میں سیکریٹ سروس سے ریٹائر ہو گئے تھے اور سیکریٹ سروس میں تبدیلیوں کے باوجود دو مرتبہ سابق امریکی صدر جیرلڈ فورڈ پر ریاست کیلی فورنیا میں قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی۔

1981ء میں اس وقت کے صدر ریگن ایک ایسے ہی قاتلانہ حملے میں بال بال بچے جب وہ واشنگٹن ہوٹل سے باہر نکل رہے تھے اور جان ہنکلی جونئیر نامی شخص نے ان پر گولی چلائی۔

صدر ریگن کو فوراً ہی قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی ہنگامی طور پر سرجری کی گئی۔

اس حملے میں سیکریٹ سروس کے ایجنٹ ٹم میک کارتھی کو پیٹ میں گولی لگی جبکہ پریس سیکریٹری جیمز بریڈی کو سر میں گولی لگی جس کی وجہ سے وہ معذور ہو گئے۔ مگر اس حملے میں کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا اور سیکریٹ ایجنٹ ٹم میک کارتھی کہتے ہیں کہ اس حملے کے بعد سیکریٹ سروس میں مزید تبدیلیاں لائی گئیں۔

صدر کینیڈی کے قتل کے 50 برس بعد جدید ٹیکنالوجی نے سیکریٹ سروس کے کام کرنے کے انداز کو بھی یکسر بدل دیا ہے جبکہ حال ہی میں صدر اوباما کو ملنے والی دھمکیوں سے واضح ہوتا ہے کہ سیکریٹ سروس کے کندھوں پر امریکی صدر کی حفاظت بہت ضروری کام ہے۔
XS
SM
MD
LG