رسائی کے لنکس

صدر ٹرمپ کا مواخذہ: وائٹ ہاؤس نے تفصیلی دلائل سینیٹ میں جمع کرا دیے


وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مواخذے کی کارروائی کے دوران ناقابل تلافی غلطیاں کی گئیں۔ (فائل فوٹو)
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مواخذے کی کارروائی کے دوران ناقابل تلافی غلطیاں کی گئیں۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے خلاف وائٹ ہاؤس نے تفصیلی دلائل پر مبنی رپورٹ امریکی سینیٹ میں جمع کرا دی ہے، جس میں مواخذے کے لیے ایوانِ نمائندگان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے صدر کو ان الزامات سے بری کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے لیے الزامات کی فہرست ایوانِ نمائندگان سے منظوی کے بعد منگل کو زیرِ بحث لائی جا رہی ہے، جہاں امریکی صدر کا ٹرائل شروع ہو رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے دلائل کے اہم نکات

وائٹ ہاؤس کی جانب سے دلائل میں کہا گیا ہے کہ ایوانِ نمائندگان قابل مواخذہ جرم کی نشاندہی میں ناکام رہا۔ صدر کے مواخذے کی کارروائی آگے بڑھانے کے لیے 'طاقت کا غلظ استعمال' کی غلط تشریح کر کے اسے بڑے جرائم اور بدعنوانی سے جوڑا گیا۔

وائٹ ہاؤس نے کہا کہ محض پالیسی اختلافات پر مبنی اس کوشش سے مستقل بنیادوں پر صدر کے مواخذے کے لیے کمزور شواہد کو بنیاد بنانے کی روایت ڈال دی گئی ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جمع کرائے گئے دلائل میں کہا گیا ہے کہ 'کانگریس کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے' کا الزام بھی غیر سنجیدہ اور خطرناک ہے۔ حالانکہ صدر نے قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنا حق استعمال کیا تھا۔

دلائل میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے تین سینئر مشیروں کو ایوانِ نمائندگان میں گواہی دینے سے روک دیا تھا کیوں کہ اُنہیں استثنٰی حاصل تھا۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مواخذے کی کارروائی کے دوران ناقابل تلافی غلطیاں کی گئیں۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پورے ہاؤس کی منظوری کے بغیر ہی مواخذے کی کارروائی شروع کر دی گئی۔

صدر کے دفاع میں دیے گئے دلائل میں کہا گیا ہے کہ ایوانِ نمائندگان نے ہاؤس کے تہہ خانے میں خفیہ سماعتوں سے مواخذے کی کارروائی شروع کی اور اس دوران صدر کو صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم رکھا گیا۔

امریکی سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔
امریکی سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایوانِ نمائندگان کے انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شیف کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے ایڈم شیف یہ 'کہانی' گھڑنے میں پیش پیش تھے۔

دلائل میں کہا گیا ہے کہ ایوانِ نمائندگان نے حقائق تک رسائی کے بجائے کسی نہ کسی طرح صدر کے مواخذے کا جواز تلاش کرنے کی کوشش کی۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق ایوانِ نمائندگان نے صدر پر محض مفروضوں کی بنیاد پر الزام لگایا کہ اُنہوں جو بائیڈن کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کے عوض یوکرینی صدر کو امداد روکنے کی دھمکی یا ملاقات کا لالچ دیا۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ الزامات کے حق میں ایوانِ نمائندگان ٹھوس شواہد پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر کے خلاف الزامات کی فہرست کی بنیاد ہی غلط تھی۔ لہذٰا، سینیٹ جلد از جلد اپنی کارروائی مکمل کرتے ہوئے صدر کو ان الزامات سے بری کرے۔

خیال رہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان نے 193 کے مقابلے میں 228 ووٹوں سے صدر کے مواخذے کی منظوری دیتے ہوئے معاملہ امریکی سینیٹ کے سپرد کر دیا تھا۔

امریکی سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ یہاں صدر کو ان الزامات سے بری کر دیا جائے گا۔

ایوانِ نمائندگان نے صدر کے خلاف مواخذے کی منظوری دے دی تھی۔
ایوانِ نمائندگان نے صدر کے خلاف مواخذے کی منظوری دے دی تھی۔

صدر ٹرمپ پر الزامات

صدر ٹرمپ پر پہلا الزام یہ ہے کہ اُنہوں نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں اپنے متوقع حریف جو بائیڈن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی پر فون کر کے دباؤ ڈالا تھا کہ وہ جو بائیڈن کے صاحبزادے ہنٹر بائیڈن کے خلاف مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرائیں۔

صدر پر یہ بھی الزام ہے کہ اُنہوں نے تعاون نہ کرنے پر یوکرین کے لیے امریکی امداد روکنے کی بھی دھمکی دی تھی۔

صدر ٹرمپ پر دوسرا الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف ہونے والی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔

صدر ٹرمپ کے خلاف فردِ جرم کے مسودے پر امریکی ایوانِ نمائندگان میں گزشتہ ہفتے ووٹنگ ہوئی تھی جس کے دوران 193 کے مقابلے میں 228 ارکان نے مواخذے کا معاملہ سینیٹ کو بھجوانے کی منظوری دی تھی۔

ایوان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کا مؤقف ہے کہ صدر ٹرمپ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا اور یہ ان کے مواخذے کے لیے کافی ہے۔

صدر ٹرمپ اپنے خلاف الزامات کو دھوکہ اور انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کرتے رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG