رسائی کے لنکس

”اٹھارویں ترمیم پر عمل درآمد نہ ہوا تو نتائج خطرناک“


سینیٹر رضا ربانی
سینیٹر رضا ربانی

پیر کے روز اسلام آباد میں صحافی برادری سے خطاب کرتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ اور حکمران پیپلز پارٹی کے ایک رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے عدالتی کمیشن کی تشکیل سمیت تمام شقیں خلوص نیت سے مرتب کیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ وکلاء کا وہ گروپ جسے اس ضمن میں تحفظات ہیں ان کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے ہیں۔

اٹھارویں آئینی ترمیم مرتب کرنے والی اصلاحاتی کمیٹی کے ارکان نے اس تنقید کو مسترد کیا ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگا رہی ہے اور کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ملک میں ایک آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کو دیکھنا چاہتی ہیں۔

پیر کے روز اسلام آباد میں صحافی برادری سے خطاب کرتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ اور حکمران پیپلز پارٹی کے ایک رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے عدالتی کمیشن کی تشکیل سمیت تمام شقیں خلوص نیت سے مرتب کیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ وکلاء کا وہ گروپ جسے اس ضمن میں تحفظات ہیں ان کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے ہیں۔

رضا ربانی نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ریاستی ادارے آئین میں متعین کردہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں گے۔ تاہم انھوں نے شبہ کیا کہ اگر پارلیمان سے منظور کردہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد نہیں ہو تا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور ایک آئینی و سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے ۔

انھوں نے اس الزام کو بھی مسترد کیا کہ آئینی اصلاحاتی کمیٹی نے 1973ء کے دستور کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا ہے اور کہا کہ اٹھارویں ترمیم کا مقصد صرف آمرانہ دور کی ترامیم کو ختم کر کے آئین کو مزید مضبوط بنانا ہے ۔

آئینی کمیٹی میں شامل مسلم لیگ نواز کے ایک سینیئر رہنمااسحاق ڈار نے بھی اٹھارویں ترمیم کا پر زور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی کمیشن کے قیام کا مقصد صرف ججوں کی تقرری کے حوالے سے ایک شفاف نظام قائم کرنا تھا جو افراد کے اثر و رسوخ سے آزاد ہوں اور ایک آزاد عدلیہ کو برقرار رکھا جا سکے۔

تاہم اسحاق ڈار کا یہ بھی کہنا تھا کہ قوانین کی تشریح عدلیہ کا استحقاق ہے جس کا ان کی جماعت احترام کرتی ہے اور یہ کہ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہیئے۔


خیال رہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں جوڈیشل کمیٹی کے قیام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں درخواستیں زیر سماعت ہیں۔تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک میں سرگرم رہنے والی وکلاء برادری کی رائے اس ضمن میں منقسم ہے اور نامور قانون ماہرین آپس میں اختلاف رکھتے ہیں۔

اس موقع پر موجود عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل اور جمعیت علماء اسلام کے رحمت اللہ کاکڑ نے بھی اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف تنقید کو مسترد کیا اور کہا کہ ترمیم کی شقوں کی تشریح کے تناظر میں کسی بھی قسم کا بحران عدم استحکام کو جنم دے گا۔

XS
SM
MD
LG