رسائی کے لنکس

کیا شاہین باغ کے مظاہرین نے بی جے پی جوائن کر لی، حقیقت کیا ہے؟


شاہین باغ کے مظاہرین شہریت کے نئے قانون کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ 16 فروری 2020
شاہین باغ کے مظاہرین شہریت کے نئے قانون کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ 16 فروری 2020

بھارت میں دہلی کا مسلم اکثریتی علاقہ شاہین باغ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ لیکن اس بار اس کی وجہ شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف دھرنا نہیں بلکہ مبینہ طور پر دھرنے میں شامل بعض افراد کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شمولیت کی خبر ہے۔

بھارت کے ذرائع ابلاغ میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاہین باغ کے مظاہرین بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں، جب کہ مظاہرے کے منتظمین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کا مظاہرے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

جن 50 افراد نے دہلی میں بی جے پی کے صدر آدیش گپتا اور قومی نائب صدر شیام جاجو کی موجودگی میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی، ان میں ایک سماجی کارکن شہزاد علی، ماہرِ امراض نسواں ڈاکٹر مہرین اور عام آدمی پارٹی کی ایک سابق کارکن تبسم حسین شامل ہیں۔

ان افراد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ شاہین باغ میں ہونے والے سی اے اے مخالف دھرنے کے معروف چہرے ہیں۔

اس خبر کے منظرِ عام پر آنے کے بعد عام آدمی پارٹی کے ترجمان اور رکن اسمبلی سوربھ بھاردواج نے ایک نیوز کانفرنس کر کے الزام عائد کیا کہ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ شاہین باغ دھرنے کے پیچھے بی جے پی تھی۔

انہوں نے یہ دلیل دی کہ بی جے پی نے دہلی اسمبلی کا انتخاب شاہین باغ کے معاملے پر لڑا اور اس کا اسے فائدہ پہنچا۔

بی جے پی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ دہلی بی جے پی کے ترجمان سید یاسر جیلانی نے کہا کہ عام آدمی پارٹی مسلمانوں کی حمایت کھو رہی ہے اس لیے وہ ایسا الزام لگا رہی ہے۔

مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا واقعی یہ لوگ شاہین باغ دھرنے کے اہم رہنما یا سرگرم افراد تھے۔

اس سلسلے میں شہزاد علی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوسروں کی مانند وہ بھی اس مظاہرے کا حصہ تھے۔

لیکن انہوں نے بی جے پی میں شمولیت کیوں اختیار کی؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں میں بی جے پی کو ایک دشمن جماعت سمجھا جاتا ہے۔ ہم یہ جاننے کے لیے بی جے پی میں گئے ہیں کہ کیا واقعی وہ مسلمانوں کی دشمن ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو اسے بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور وہ سی اے اے کے مسئلے پر بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کر کے اس کا کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔

ادھر دھرنے کے منتظمین انکار کرتے ہیں کہ شہزاد اور ان کے ساتھی مظاہرے کا حصہ تھے۔

منتظمین میں شامل سید تاثیر احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہزاد کو اسٹیج پر بھی نہیں جانے دیا جاتا تھا۔ مظاہرے کی قیادت تو بہت دور کی بات ہے۔

ان کے بقول جب احتجاج شروع ہوا تو اس کے بعد ہی ہزاروں افراد کو پولیس کی جانب سے نوٹس بھیجے گئے، لیکن شہزاد کے نام ایک بھی نوٹس جاری نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب 24 مارچ کو مظاہرہ ختم کیا گیا اور پولیس نے بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا تو شہزاد بھی وہاں موجود تھے اور وہ ڈی سی پی کے پاس کھڑے تھے لیکن انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔

سید تاثیر کا دعویٰ ہے کہ شہزاد کے پہلے سے ہی، بی جے پی کے رہنماؤں سے تعلقات تھے اور اس کی وجہ سے کئی بار دھرنے کے مقام پر ان کے ساتھ مار پیٹ بھی ہوئی تھی۔

تاثیر کے بقول شہزاد نے ذاتی فائدہ اٹھانے کے لیے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔

شاہین باغ میں شہریت قانون کے خلاف احتجاج جاری
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:47 0:00

دھرنے میں پیش پیش رہنے والی خواتین کا بھی کہنا ہے کہ شہزاد کا دھرنے کی قیادت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور بہت سے شرکا کی مانند وہ بھی دھرنے کے مقام پر آیا کرتے تھے۔

بی جے پی کی ایک ترجمان نگہت عباس کہتی ہیں کہ شہزاد مظاہرے میں کبھی شامل نہیں ہوئے، بلکہ وہ اس کے مخالف تھے۔ وہ دھرنا ختم کرنے پر زور ڈالتے تھے۔

منتظمین میں سے ایک اور ذمہ دار حاجی عارف سیفی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہزاد شاہین باغ کے نہیں بلکہ قریبی کالونی جسولہ کے رہائشی ہیں۔ وہ بھی مظاہرے میں شہزاد اور ان کے ساتھیوں کی شمولیت سے انکار کرتے ہیں۔

انہوں نے عام آدمی پارٹی کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سوربھ بھاردواج نے یہ کہہ کر کہ دھرنے کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ تھا۔ تمام مظاہرین اور پورے شاہین باغ کی توہین کی ہے۔

حاجی عارف سیفی کے بقول سوربھ بھاردواج نے انھیں بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور وزیرِ اعلیٰ دہلی اروند کیجری وال سے مطالبہ کیا کہ وہ یا تو معافی مانگیں یا بھاردواج سے استعفیٰ لیں۔

منتظمین نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ اگر حکومت نے دوبارہ سی اے اے اور این آر سی نافذ کرنے کا اعلان کیا تو ایک بار پھر دھرنا دیا جائے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG