رسائی کے لنکس

آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام ہائی کورٹ نے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی درخواست ضمانت طبی بنیادوں پر منظور کر لی ہے۔ عدالت نے آصف زرداری کو ایک، ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

آصف زرداری کی جانب سے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے دائر درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ سابق صدر کی صحت خراب ہے اور ان کا علاج جیل میں ممکن نہیں۔ لہذٰا، انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت کے روبرو سابق صدر کی میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری ذیابیطس کے مریض ہیں جبکہ انہیں دل کا عارضہ بھی لاحق ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ آصف زرداری کی انجیو پلاسٹی ہو چکی ہے اور ان کے دل میں تین سٹنٹ بھی ڈالے جا چکے ہیں۔ ان کی دوبارہ انجیو گرافی کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذٰا، جیل میں ان کا علاج ممکن نہیں ہے۔

عدالت نے درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے آصف زرداری کو طبی بنیادوں پر رہا کرنے کا حکم دیا۔

نیب کے وکلا نے عدالت میں بتایا کہ آصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات مکمل کر کے ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب کو آصف زرداری سے مزید تفتیش کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا نیب یہ چاہتی ہے کہ دوران حراست آصف زرداری کا سرکاری خرچ پر علاج کرایا جائے، جس پر نیب کے وکلا نے کوئی جواب نہیں دیا۔

خیال رہے کہ سابق صدر آصف زرداری گزشتہ کئی دنوں سے اسلام آباد کے پمز اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

آصف زرداری پر الزامات کیا ہیں؟

نیب نے رواں سال جون میں سابق صدر آصف علی زرداری کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار کیا تھا۔ نیب کا یہ الزام تھا کہ آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے تین ارب 77 کروڑ روپے کی کرپشن کی۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو 2015 میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کچھ مشکوک ترسیلات کی رپورٹ بھیجی تھی۔ ایف آئی اے نے 'اے ون انٹرنیشنل' نامی اکاؤنٹ کے ذریعے رقوم کی مشکوک منتقلی کا مقدمہ درج کیا۔ دوران تفتیشن کئی مزید اکاؤنٹ سامنے آئے۔

نیب کا یہ بھی الزام ہے کہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے حکومت کی زمین غیر قانونی طور پر پارک لین نامی کمپنی کو منتقل کی جو آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے نام پر ہے۔

آصف زرداری کے وکلا کا یہ موقف رہا ہے کہ سابق صدر 2008 میں اس کمپنی کے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے، جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا بھی اس کمپنی سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔

نیب نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کو عبوری ضمانت منسوخ ہونے پر جون میں گرفتار کیا تھا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آصف زرداری کی رہائی پر ججز کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نیب اور حکومت کا گٹھ جوڑ روکنا چاہتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آصف زرداری اب باہر آ رہے ہیں وہ کھلاڑی کے شکاری ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے دعویٰ کیا کہ یہ سال عمران خان کی حکومت کا آخری سال ثابت ہو گا۔

فریال تالپور کی درخواست

میگا منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت کی درخواست پر نیب نے عدالت میں جواب داخل نہیں کرایا، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کو جواب جمع کرانے کے لیے وقت دیتے ہوئے فریال تالپور کی درخواست پرسماعت 17 دسمبر تک ملتوی کردی۔

فریال تالپور کی درخواست ضمانت میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ خصوصی بچی کی والدہ ہیں، جس کی دیکھ بھال کے لیے ٹرائل مکمل ہونے تک ضمانت منظور کی جائے۔

حکومتی ردعمل

اس معاملے پر وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹوئٹ کی اور کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی ضمانت اہم نہیں ہے کیونکہ دونوں کا پاکستان کے سیاسی مستقبل میں کردار ختم ہو چکا ہے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ عوام کی اصل دلچسپی یہ ہے کہ ان حضرات سے اربوں روپے کیسے وصول کیے جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG