رسائی کے لنکس

تجارتی بحری جہاز پر قبضہ؛ پکڑے گئے حملہ آور ممکنہ طور پر حوثی باغی نہیں صومالی ہیں: پینٹاگان


ماضی میں صومالی بحری قزاق بحری تجارتی جہازوں پر متعدد حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
ماضی میں صومالی بحری قزاق بحری تجارتی جہازوں پر متعدد حملوں میں ملوث رہے ہیں۔

امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان نے کہا ہےکہ یمن کے قریب ایک تجارتی بحری جہاز پر قبضے کے بعد امریکی افواج نے جن پانچ مسلح حملہ آوروں کو گرفتار کیا تھا، وہ ممکنہ طور پر ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی نہیں بلکہ صومالی تھے۔

اختتامِ ہفتہ پر تجارتی جہازوں پر حملے حوثیوں کی طرف سے کیے گئے ہیں، جنہیں اسرائیل-حماس جنگ کی وجہ سے خطے میں تشدد میں اضافے کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

پینٹاگان کے پریس سیکریٹری بریگیڈیئر جنرل پیٹ رائڈر نےپیر کو ایک بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ، "ہم جانتے ہیں کہ وہ حوثی نہیں ہیں۔ اگرچہ اس خطے میں بحری قزاقی کم ہے، تاہم یہ واضح طور پر قزاقی سے متعلق واقعہ تھا۔"

تاہم انہوں نے اس خیال کو مسترد نہیں کیا کہ باغیوں کا اس حملے سے کسی نہ کسی طرح کاتعلق تھا۔

عدن میں یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نے اتوار کو خلیج عدن میں ایم وی سینٹرل پارک پر حملے کا الزام حوثیوں پر عائد کیا تھا۔

صومالی بحری قزاق ماہی گیری کے ایک جہاز کے نزدیک۔ فائل فوٹو
صومالی بحری قزاق ماہی گیری کے ایک جہاز کے نزدیک۔ فائل فوٹو

لائبیریا کے جھنڈے والے ٹینکر نے بحری قزاقوں کے حملے سے متعلق امریکی سمندری بیڑے ڈسٹرائر "یو ایس ایس میسن" کو آگاہ کیا تھا۔

پینٹاگان کے پریس سیکریٹری کے مطابق امریکی بیڑے کے آگے بڑھنے پر پانچوں حملہ آوروں نے اپنی چھوٹی کشتیوں میں فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن امریکی افواج نے ان کا تعاقب کیا اور انتباہی گولیاں چلائیں، جس کے نتیجے میں "انہوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔"

تاہم اسی دوران، 90 منٹ کے بعد، حوثیوں کے زیر کنٹرول یمن سے داغے گئے دو بیلسٹک میزائل میسن سے تقریباً 10 ناٹیکل میل (18 ناٹیکل کلومیٹر) کے فاصلے پر گرے۔

رائڈر نے کہا کہ امریکی ڈسٹرائر نے میزائلوں کو روکنے یا روکنے کی کوشش نہیں کی کیوں کہ انہیں اس لیےخطرہ نہیں سمجھا گیا تھا کیوں کہ وہ پانی میں گرے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا بیلسٹک میزائل میسن کو نشانہ بنا رہے تھے۔ رائڈر نے کہا کہ اس وقت اس علاقے میں تین چینی جہاز موجود تھے لیکن انہوں نے سینٹرل پارک کی مدد طلب کرنے والی کال کا جواب نہیں دیا۔

چینی حکومت نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ حملے کے وقت اس علاقے میں اس کےبحری جہاز موجود تھے۔

یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نے بیلسٹک میزائل حملے کے لیے بھی ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا لیکن دارالحکومت صنعا پر قابض باغیوں نے نہ تو ٹینکر پر قبضے یا پھر میزائل حملے کی ذمہ داری کوتسلیم کیاہے۔

ان واقعات سے اسرائیل۔ حماس جنگ سے منسلک جہازوں پر حملوں کے سلسلے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

لائبیریا کے پرچم بردار جہاز سینٹرل پارک میں کیا تھا؟

امریکہ اور برطانوی فوجیوں اور نجی انٹیلی جینس فرم ایمبرے نے بتایا کہ حملہ آوروں نے خلیج عدن میں لائبیریا کے پرچم بردار جہاز سینٹرل پارک پر قبضہ کر لیا جس کا انتظام زوڈیئک میری ٹائم کے پاس ہے۔

زوڈیئک نے پیر کے روز بتایا کہ یہ جہاز فاسفورک ایسڈ لے جا رہا تھا اوراس کے عملے میں بلغاریہ، جارجیا، بھارت ، فلپائن، روس، ترکی اور ویتنام کے 22 ملاح شامل تھے جنہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔

امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ اس کی افواج نے اس قبضے کے ردعمل میں مسلح حملہ آوروں سے ٹینکر کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ افواج کے ساتھ آرلے برک کلاس ڈسٹرائر یو ایس ایس میسن بھی موجود تھا۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے' ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG