رسائی کے لنکس

دہشت گردی کا خدشہ، آسٹریلیائی حکام کا انتباہ


فائل
فائل

وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے منگل کے روز متنبہ کیا کہ دہشت گردی کے اندیشے کا گمان بڑھ گیا ہے، حالانکہ اہل کاروں کو یہ نہیں معلوم کہ حملے کی صورت کیا اور کیسی ہو سکتی ہے

گذشتہ ہفتے سڈنی کے ایک کیفے پر ہونے والےمہلک محاصرے کے کچھ ہی دِن بعد، آسٹریلیائی حکام کا کہنا ہے کہ ٹیلی فون پر دہشت گردی سے متعلق سُن گُن سامنے آئی ہے۔

وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے منگل کے روز متنبہ کیا کہ دہشت گردی کے اندیشے کا گمان بڑھ گیا ہے، حالانکہ اہل کاروں کو یہ نہیں معلوم کہ حملے کی صورت کیا اور کیسی ہو سکتی ہے۔


بقول اُن کے، ’سکیورٹی کے اداروں کی طرف سے دی گئی آج کی بریفنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ مارٹن پلیس کے محاصرے کے تناظر میں دہشت گردی سے متعلق باتیں زور پکڑ چکی ہیں۔ اِسی لیے، یہ ضروری ہوگیا ہے کہ لوگ چوکنہ اور باخبر رہیں۔ ساتھ ہی، یہ یقین دلایا گیا ہےکہ ہماری پولیس اور سلامتی سے متعلق ادارے ہر ممکنہ اقدام کر رہے ہیں، جس سے ہمیں محفوظ رکھا جا سکتا ہو‘۔

مسٹر ایبٹ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی آیا ’دہشت گردی کی اِن باتوں‘ سے کیا مراد ہے۔

گذشتہ ہفتے، دماغی توازن کھوئے ہوئے ایک ایرانی نژاد شخص کی طرف سے بندوق کے زور پر سڈنی کے وسطی کاروباری ضلعے میں واقع ’لِنت چوکلیٹ کیفے‘ میں یرغمال بنانے کے واقعے میں دو افراد ہلاک ہوئے۔

منگل کے روز ہلاک ہونے والے اِن دو یرغمالیوں، کیفے کے 34 برس کے منیجر، ٹوری جانسن اور 38 برس کی قانون داں، کترینہ ڈاسن کی تدفین کی رسومات ادا کی گئیں۔
مسلح شخص، ہارون مونس ایک طویل عرصے سے جرائم پیشہ بتایا جاتا ہے، جنھوں نے داعش کی حمایت کی حامی بھری تھی۔ پولیس کے ساتھ گولیوں کے تبادلے میں، وہ مارا گیا۔

آسٹریلیا کے حکام کا کہنا ہے کہ مونس اپنے آپ کو شیخ سمجھتا تھا، جن کا دولت اسلامیہ کے سنی گروپ سے کوئی واسطہ سمجھ سے بالا تر ہے۔

جب گذشتہ ستمبر میں آسٹریلیا نے داعش کے خلاف جنگ میں وسیع تر کردار ادا کرنا شروع کیا، ملک کو دہشت گردی کا خطرہ لاحق رہا ہے، جہاں انتباہ کی سطح، بڑھی ہوئی ہے۔

آسٹریلیا نے امریکی قیادت والے فوجی اتحاد کے لیے فوجی فراہم کیے ہیں، جن کا مقصد عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے کنٹرول والے علاقوں کو شدت پسندوں سے خالی کرانا ہے۔

XS
SM
MD
LG