رسائی کے لنکس

بہاول پور اور جنوبی پنجاب صوبے کا بل، کون کتنا مخلص ہے؟


بہاول پور کی ایک خوبصورت تاریخی عمارت نور محل۔ فائل فوٹو
بہاول پور کی ایک خوبصورت تاریخی عمارت نور محل۔ فائل فوٹو

پاکستان مسلم لیگ نون کے قومی اسمبلی کے چند ارکان نے، جن میں احسن اقبال، رانا تنویر اور رانا ثناللہ شامل ہیں، قومی اسمبلی میں ایک بل جمع کرایا ہے جس میں پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے پنجاب میں دو نئے صوبے قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

نئے صوبے آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے جنوبی علاقوں پر مشتمل ہوں گے۔ نئے قائم ہونے والے صوبوں میں سے ایک صوبہ بہاول پور جب کہ دوسرا صوبہ جنوبی پنجاب کہلائے گا۔

پنجاب کے جنوب میں واقع ڈیرہ غازی خان، ملتان اور بہاول پور ڈویژن کو سرائیکی پٹی کہا جاتا ہے۔ یہاں زیادہ تر سرائیکی زبان بولی جاتی ہے۔ یہ علاقے گنا، کپاس، گندم اور کئی دوسری اجناس کی پیدوار میں شہرت رکھتے ہیں اور ان علاقوں میں بڑی تعداد میں آم، کینو اور دوسرے پھلوں کے باغات پائے جاتے ہیں۔

سرائیکی پٹی کے لوگوں میں ایک عرصے سے یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ ترقیاتی اور سیاسی امور میں انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کے علاقوں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو وسطی اور بالائی پنجاب کو حاصل ہے۔

مقامی سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس محرومی کا واحد حل جنوبی اضلاع پر مبنی ایک نئے صوبے کا قیام ہے جس کا نام صوبہ جنوبی پنجاب ہو۔ تاہم بہاول پور ڈویژن کی اکثریت اس سے اتفاق نہیں کرتی اور وہ اپنے لیے ایک الگ صوبے کے خواہاں ہیں۔

جب پاکستان قائم ہوا تو بہاول پور ایک الگ ریاست تھی جس جو ون یونٹ بننے تک موجود رہی۔ صوبہ بہاول پور کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ون یونٹ میں ریاست بہاول پور کو ضم کرتے وقت ان سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر کبھی ون یونٹ ختم ہوا تو بہاول پور کی سابقہ حیثیت بحال کر دی جائے گی۔

صوبہ بہاول پور کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ریاست بہاول پور کئی صدیوں تک موجود رہی۔ وہ مالی اعتبار سے ایک مستحکم ریاست تھی۔ اس کی اپنی اسمبلی اور انتظامی یونٹ تھے۔ وہ صوبہ جنوبی پنجاب میں ضم ہونے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب میں شامل ہونے کا مطلب آقاؤں کی تبدیلی ہو گا۔ اور ہمیں لاہور کی بجائے ملتان کی تابعداری کرنا پڑے گی۔

صوبہ جنوبی پنجاب کے حامیوں کے جانب سے بہاول پور کو نئے صوبے کا صدر مقام بنانے کی پیش کش بھی کی جا چکی ہے، لیکن بہاول صوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہم اپنی زمین پر اپنا صوبہ چاہتے ہیں۔

صوبہ بہاول پور کی تحریک کئی عشروں پرانی ہے اور اس تحریک کے دوران کئی افراد مظاہروں میں اپنی جانیں بھی گنوا چکے ہیں۔ ہر الیکشن کے موقع پر صوبہ بحالی کے سیاست دان سرگرم ہو جاتے ہیں اور اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد نئے انتخابات تک کے لیے یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں، جب 18 ویں ترمیم منظور ہوئی اور صوبہ سرحد کو خیبر پختون خوا کا نام دیا گیا، جنوبی پنجاب صوبے کی تحریک زوروں سے شروع ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے کئی مقامی سیاست دان اس تحریک کو تقویت دے رہے تھے۔ اس وقت پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت تھی۔ اس موقع پر مسلم لیگی راہنماؤں نے پنجاب اسمبلی سے ایک قرار دار منظور کرائی جس میں پنجاب کے جنوبی حصے میں دو نئے صوبے، بہاول پور اور جنوبی پنجاب قائم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

صوبہ بہاول پور تین اضلاع یعنی بہاول پور، بہاول نگر اور رحیم یار خان پر، جب کہ صوبہ جنوبی پنجاب ملتان ڈویژن اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن پر مشتمل تھا۔ 2013 کے انتخابات کے بعد پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ نون کی حکومتیں قائم ہوئیں اور نئے صوبوں کا معاملہ ایک بار پھر سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ حتیٰ کہ جنوبی پنجاب سے صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچنے والے اراکین نے اس پر کوئی زور دار آواز نہیں اٹھائی۔

2018 کی انتخابی مہم میں پاکستان تحریک انصاف نے صوبہ جنوبی پنجاب کا نعرہ لگایا۔ جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نون کے کئی مقامی سیاست دان اپنی جماعت چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ اگرچہ پی ٹی آئی مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومتیں قائم کر چکی ہے لیکں اس کے پاس پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں ہے اور اس سلسلے میں اسے مسلم لیگ نون سمیت دیگر جماعتوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی میں بہاول پور اور جنوبی پنجاب کے نام سے دو نئے صوبوں کا بل جمع کروا کر پی ٹی آئی کو امتحان میں ڈال دیا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے اکثر رہنما صرف جنوبی پنجاب صوبے کے حامی ہیں۔ اگر وہ بہاول پور کو صوبے کا درجہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے تو انہیں وہاں سیاسی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نون نے جو بل متعارف کرایا ہے اس میں صوبہ بہاول پور کے لیے قومی اسمبلی کی 18 نشستیں رکھی گئی ہیں جن میں 3 نشستیں خواتین کی ہیں۔ جب کہ صوبہ جنوبی پنجاب کی قومی اسمبلی میں 38 نشستیں ہوں گی۔ نئے صوبوں کے قیام سے قومی اسمبلی کی سیٹوں کی تعداد بڑھ کر 326 ہو جائے گی۔ اسی طرح سینیٹ میں بھی نئے صوبوں کو مساوی نشستیں ملیں گی۔

ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی 39 نشستیں صوبہ بہاول پور کو چلی جائیں گی جن میں 8 سیٹیں خواتین کی ہوں گی اورصوبہ جنوبی پنجاب کو 80 نشستیں فراہم کی جائیں گی جن میں 14 خواتین کے لیے ہوں گی۔

مسلم لیگ نون کے رہنماؤں نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ دو نئے صوبوں کے قیام کا بل 9 مئی 2012 کو پنجاب اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے اور اب اس پر قومی اسمبلی نے کام کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نئے صوبوں کی تخلیق پر آگے بڑھتی ہے تو وہ اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بل پر پاکستان تحریک انصاف کیا ردعمل دیتی ہے۔ اگر وہ ایک صوبے کے قیام کے اپنے موقع پر قائم رہتی ہے تو اس کے لیے پارلیمنٹ سے مطلوبہ ووٹ حاصل کرنا دشوار ہو گا اور اگر وہ دو صوبوں کے بل کا ساتھ دیتی ہے تو بہاول پور کی سیاسی ہمدردیاں مسلم لیگ نون کے ساتھ جا سکتی ہیں۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG