رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: مدارس کے اساتذہ پر طلبا سے جنسی زیادتی کے الزامات


بنگلہ دیش میں 18 سالہ طالبہ نصرت نے استاد پر زیادتی کا الزام لگایا تھا۔ کیس واپس نہ لینے پر اسے زندہ جلا کر قتل کر دیا گیا تھا — فائل فوٹو
بنگلہ دیش میں 18 سالہ طالبہ نصرت نے استاد پر زیادتی کا الزام لگایا تھا۔ کیس واپس نہ لینے پر اسے زندہ جلا کر قتل کر دیا گیا تھا — فائل فوٹو

بنگلہ دیش میں مدارس کے اساتذہ پر طلبا جنسی استحصال اور زیادتی کے الزامات لگا رہے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا کے ذریعے الزامات کے سامنے آنے بعد ملک میں نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق، بنگلہ دیش میں مذہبی مدارس کو ایک مقدس درجہ حاصل ہے۔ وہاں کسی مذہبی ادارے پر الزام لگانے یا مخالف بات کرنے کو ممنوع سمجھا جاتا ہے، جبکہ مدارس میں بچوں کے ساتھ زیادتی تو ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنے سے لوگ گھبراتے ہیں۔ لیکن، اب ایسے واقعات سے متعلق خاموشی ختم رہی ہے۔

مدارس میں پڑھنے والے بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات ماضی میں سامنے نہیں آتے تھے۔ لیکن، اب سوشل میڈیا پر لوگوں نے ان واقعات کے حوالے سے آواز اٹھانا شروع کر دی ہے۔

یہ واقعات ایک لڑکی کے قتل کے بعد سامنے آنا شروع ہوئے جسے رواں سال اپریل میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس لڑکی نے اپنے استاد پر زیادتی کا الزام لگایا تھا۔

بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ کے قریب ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ یہاں ہزاروں مدارس موجود ہیں جن میں مذہب سے متعلق درس و تدریس ہوتی ہے۔

جولائی میں پولیس نے طلبا سے جنسی زیادتی کے الزام میں مدارس کے پانچ اساتذہ کو گرفتار کیا تھا جب کہ ایک 11 سالہ یتیم بچے کی زیادتی اور قتل کے الزام پر متعدد سینئر طلبا بھی گرفتار کیے گئے ہیں جو مدارس میں پڑھتے تھے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ طلبا سے زیادتی اور جنسی استحصال کے واقعات بنگلہ دیش کے مدارس میں عام ہیں جبکہ اس کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے تاہم یہ رپورٹ نہیں ہوتے۔

بنگلہ دیش میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے سربراہ عبد الشاہد نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ مدارس میں ہونے والے ایسے جرائم کے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے برسوں سے سامنے نہیں آئے۔

ان کے بقول "عقیدت مند مسلمان بچوں کو مدارس میں بھیجتے ہیں۔ لیکن وہ ان جرائم کے بارے میں کچھ نہیں کہتے کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ اس سے ان اہم مذہبی اداروں کو نقصان پہنچے گا۔"

حذیفہ الممدوح مدرسے کے ایک سابق طالب علم ہیں۔ اب وہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ ڈھاکہ کے تین مدارس میں پڑھ چکے ہیں۔ حذیفہ نے جولائی میں اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر متعدد پوسٹس لگائیں جس میں انہوں نے اپنے اور دیگر طلبا کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کے واقعات بیان کیے۔

حذیفہ کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات مدارس میں اتنے بڑے دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں کہ جو بھی طالب علم وہاں پڑھتا ہے وہ اس بارے میں ضرور جانتا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ متعدد اساتذہ ایسے ہیں جو بچوں کے ریپ کو خواتین کی عصمت دری سے چھوٹا گناہ سمجھتے ہیں۔

زیادتی کا نشانہ بننے والے مدرسے کے ایک اور طالب علم مستقیم بااللہ نے ایک ویب سائٹ پر اپنی کہانی شائع کی جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ صرف سات سال کے تھے جب ان کے ساتھ ایک سینئر طالب علم نے جنسی زیادتی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ''دوسری بار ایک استاد نے جنسی زیادتی کی جس کی وجہ سے میں بے ہوش ہو گیا۔"

مستقیم نے کہا کہ وہ ایسے درجنوں طالب علموں کو جانتے ہیں جنہیں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا یا پھر وہ اپنے کسی ساتھی کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے گواہ ہیں۔

ان کے بقول، تقریباً ہر مدرسے میں ایسی کہانیاں عام ہیں۔

دوسری جانب مدارس کے اساتذہ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں منفی پروپگینڈا قرار دیا ہے۔

محفوظ الحق اس مدرسے کے پرنسپل ہیں جہاں حذیفہ الممدوح نے تعلیم حاصل کی۔

محفوظ الحق نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں 20 ہزار مدرسے ہیں ان میں سے کچھ میں ایک دو واقعات ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو بچے مدارس میں پڑھنا نہیں چاہتے وہ مدارس اور اساتذہ کے خلاف ایسی کہانیاں پھیلاتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں مدارس کے اتحاد ’حفاظتِ اسلامی‘ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی تنظیم نے ایک کانفرنس میں مدارس کے 1200 پرنسپلز کو ایسے واقعات کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی ہدایات دی ہیں۔

XS
SM
MD
LG