رسائی کے لنکس

بائیڈن کا کرونا حکمتِ عملی کا اعلان، ٹرمپ کا انتخابی شکست تسلیم کرنے سے انکار


جو بائیڈن حکومت سازی کی تیاری میں مصروف ہیں اور اپنی آئندہ کی ترجیحات سامنے لا رہے ہیں۔
جو بائیڈن حکومت سازی کی تیاری میں مصروف ہیں اور اپنی آئندہ کی ترجیحات سامنے لا رہے ہیں۔

امریکہ کے صدارتی انتخابات کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق ملک کے 46ویں نومنتخب صدر جو بائیڈن نے کرونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں کام شروع کر دیا ہے جب کہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

جو بائیڈن جہاں ایک جانب حکومت سازی کی تیاری میں مصروف ہیں اور اپنی آئندہ کی ترجیحات سامنے لا رہے ہیں وہیں صدر ٹرمپ انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کا ذکر کر رہے ہیں اور نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

جو بائیڈن نے پیر کو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ماہرین پر مشتمل 13 رکنی ٹیم کا اعلان کیا ہے جس میں ڈاکٹر ووک مرتھی، سابق فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کمشنر ڈاکٹر ڈیوڈ کیسلر اور ییل یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ایسوسی ایٹ ڈین ڈاکٹر مارسیلا نونیز اسمتھ شامل ہیں۔

جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کرونا وائرس کی روک تھام اُن کی انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا اور ماہرین اُنہیں عالمی وبا کی صورتِ حال سے آگاہ کرتے رہیں گے۔

نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس نے اتوار کو ایک ویب سائٹ بھی متعارف کی ہے جس میں وہ اپنی ترجیحات کا ذکر کر رہے ہیں۔

انہوں نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے سات نکاتی منصوبہ پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تمام امریکیوں کے لیے کرونا ٹیسٹ کی سہولت مفت ہو گی اور ویکسین کی دستیابی کے بعد اس کی مساوی تقسیم کی جائے گی۔

یاد رہے کہ انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن صدر ٹرمپ پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے اُن کی حکمتِ عملی درست نہیں۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ نے پیر کی شب اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اگر جو بائیڈن ملک کے صدر ہوئے تو عوام کو مزید چار سال کے لیے کرونا کی ویکسین دستیاب نہیں ہوگی۔

ان کے بقول اگر وہ نہ ہوتے تو فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا ادارہ کرونا ویکسین کی اتنی جلدی منظوری نہ دیتا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بیوروکریسی لاکھوں جانیں ضائع کر دے گی۔

ایک اور ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اور ڈیموکریٹس یہ نہیں چاہتے تھے کہ کرونا کی ویکسین ان کی موجودگی میں الیکشن سے قبل سامنے آئے تاہم یہ ویکسین الیکشن کے پانچ روز بعد آ گئی ہے۔ اُن کے بقول وہ ایسا کہتے رہے ہیں کہ الیکشن سے قبل ویکسین آ جائے گی۔

واضح رہے کہ امریکہ دنیا بھر میں کرونا وائرس سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جہاں اب تک دو لاکھ 38 ہزار سے زائد اموات اور ایک کروڑ سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔

انتخابات سے قبل صدر ٹرمپ کو اس تنقید کا سامنا تھا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے وہ سنجیدہ نہیں جب کہ صدر ٹرمپ کا اصرار تھا کہ عالمی ادارۂ صحت نے عالمی وبا کے سلسلے میں امریکہ کو درست معلومات فراہم نہیں کیں۔

ٹرمپ کا شکست تسلیم کرنے سے انکار

تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ پر واضح برتری حاصل کی ہے۔

امریکی ذرائع ابلاغ جو بائیڈن کی کامیابی کا اعلان کر رہے ہیں تو دوسری جانب عالمی رہنماؤں کی جانب سے بھی جوبائیڈن کو مبارک باد دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کر رہے ہیں اور انتخابی شکست تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔

پیر کی شب صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں اس خبر کو شیئر کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ انتخابات میں ووٹنگ کے عمل میں مبینہ بے ضابطگیوں کا معاملہ اٹارنی جنرل ولیم بار دیکھیں گے۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم نے انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف مختلف ریاستوں کی عدالتوں سے رجوع کر رکھا ہے۔

صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا کہنا ہے کہ ابھی کسی ریاست نے بائیڈن کی کامیابی کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی۔ بہت سی ریاستوں میں لازمی دوبارہ گنتی ہو گی۔

صدر ٹرمپ نے کوئی شواہد پیش کیے بغیر یہ الزام لگایا ہے کہ ریاست پینسلوینیا میں اُن کی انتخابی مہم کے مبصرین کو ووٹوں کی گنتی کے مشاہدے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اُن کے بقول میڈیا نہیں بلکہ قانون کے مطابق کاسٹ کیے گئے ووٹ ہی فاتح کا تعین کریں گے۔

XS
SM
MD
LG