رسائی کے لنکس

بائیڈن اور پوٹن کا رابطہ: امریکہ کا یوکرین میں روسی مداخلت کی صورت میں سخت ردِ عمل کا عندیہ


وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر بائیڈن نے صاف الفاظ میں یہ پیغام دیا ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیف روس کی جانب سے یوکرین میں مداخلت کا فیصلہ کن ردعمل دیں گے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر بائیڈن نے صاف الفاظ میں یہ پیغام دیا ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیف روس کی جانب سے یوکرین میں مداخلت کا فیصلہ کن ردعمل دیں گے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین کی سرحد پر حالات معمول پر لائیں اگر کسی مہم جوئی کی کوشش کی گئی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

صدر جو بائیڈن اور پوٹن کے درمیان جمعرات کو لگ بھگ 50 منٹ تک ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر بائیڈن نے روسی ہم منصب کو واضح پیغام دیا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین میں مداخلت ہوئی تو امریکہ اس کا فیصلہ کن ردعمل دے گا۔

جین ساکی کے مطابق روسی صدر کی جانب سے یوکرین کی سرحد پر ہزاروں روسی فوجیوں کے جمع ہونے سے متعلق کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔

کریملن کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ بائیڈن نے پوٹن کو یوکرین میں مداخلت کی صورت میں سخت معاشی پابندیاں عائد کرنے کا کہا ہے جس کے جواب میں روسی صدر نے امریکی ہم منصب کو خبردار کیا کہ ایسی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مکمل طور پر تباہ ہو سکتے ہیں۔

جین ساکی نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ آئندہ ماہ سے شروع ہو سکتا ہے۔ اس میں پہلے جنوری کی 10 تاریخ سے دوطرفہ مذاکرات کا انعقاد ہونا ہے جس کے بعد نیٹو روس کونسل کے مذاکرات ہیں اور پھر آرگنائزیشن فار سیکیورٹی اینڈ کو آپریشن ان یورپ میں شرکت ہے۔

جین ساکی نے کہا کہ صدر بائیڈن نے دہرایا ہے کہ ان مذاکرات میں مؤثر پیش رفت صرف اسی صورت ممکن ہے اگر بات چیت کے ماحول میں سے شدت کو کم کیا جائے۔

البتہ وائٹ ہاؤس کے حکام نے روس سے مذاکرات کی شرائط پر عوامی طور پر گفتگو کرنے سے انکار کیا ہے۔

گزشتہ کئی ماہ سے روسی افواج یوکرین کی سرحد پر تعینات ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق ان فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔ اسی دوران یوکرین بھی سرحد کی اپنی جانب دفاعی انتظامات کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ سابقہ سوویت یونین ریاست یوکرین نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) میں شمولیت کی کوشش کرتا رہا ہے البتہ روس نے ہمیشہ اس اقدام کی مخالفت کی ہے۔

پوٹن کے خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوو نے کہا ہے کہ کریملین پوٹن کی صدر بائیڈن سے ہونے والی گفتگو سے خوش ہے کیوں کہ ان کے بقول پوٹن نے بائیڈن پر زور دیا تھا کہ وہ آنے والے سیکیورٹی مذاکرات سے ٹھوس نتائج کا حصول چاہتے ہیں۔

روس چاہتا ہے کہ نیٹو اپنے اتحاد میں یوکرین کو شامل نہ کرے اور یہ کہ نیٹو وسطی اور مشرقی یورپ سے اپنے ہتھیار اور افواج کی تعداد کو کم کرے۔

روسی صدر کا دورہٴ بھارت: پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:23 0:00

اگرچہ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ پیوٹن یوکرین میں جنگ شروع کریں گے لیکن یوکرین کی سرحد پر موجود ہزاروں کی تعداد میں افواج کسی بھی معمولی واقعے سے جنگ چھڑنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے کینن انسٹیٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ول پومیرانز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پوٹن کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں افواج کی تعیناتی صرف فریب نظر ہے تو بھی یہ بہت تشویش ناک ہے کیوں کہ انہیں اس بات کو ضروری بنانا ہوگا کہ یہ ایک لاکھ فوج تیار تو رہے لیکن حکم دیے بغیر خود سے ہی کوئی اقدام نہ اٹھائے۔

جہاں وائٹ ہاؤس نے بار بار کہا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین میں مداخلت کے سخت نتائج ہوں گے وہیں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے بدھ کے روز ایک ٹوئٹ کی جس میں انہوں نے کہا کہ امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے وعدہ کیا ہے کہ یوکرین کو روسی جارحیت کے خلاف مکمل امریکی حمایت حاصل ہو گی۔

XS
SM
MD
LG