رسائی کے لنکس

امریکہ آج ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے اہم اہداف طے کر رہا ہے


صدر بائیڈن ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق انتظامی حکم ناموں پر دستخط کرتے ہوئے۔ فائل فوٹو۔
صدر بائیڈن ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق انتظامی حکم ناموں پر دستخط کرتے ہوئے۔ فائل فوٹو۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دنیا کے چالیس ملکوں کے نمائندوں اور سربراہوں کا ایک اہم اجلاس آج وائٹ ہاؤس میں منعقد ہو رہا ہے۔ وائٹ ہاوس نے کہا ہے کہ موسمیاتی سربراہ اجلاس کے موقعے پر 2030 تک زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے سے متعلق اہم اہداف مقرر کئے جائیں گے۔

وائس آف امریکہ کے سٹیو باراگونا کی رپورٹ کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلیوں کیلئے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ سن 2005 کے مقابلےمیں زہریلی گیسوں کے اخراج کی سطح میں 50 فیصد کمی لائی جائے۔

مگر کیا اِن اہداف کا حصول ممکن ہے؟ یونیورسٹی آف میری لینڈ میں قائم سینٹر فار گلوبل سسٹین ایبلٹی کے ڈائیریکٹر نیتھن ہلٹ مین کے بقول ، یہ ایک بہت ہی مشکل مگر قابلِ حصول ہدف ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق کیلئے واشنگٹن میں قائم ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ میں بین الاقوامی موسمی تبدیلیوں کے پروگرام کے ڈائیریکٹر ڈیوڈ واسکوو کہتے ہیں کہ یہ اجلاس امریکہ کیلئے ایک موقع ہے کہ وہ بتا سکے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں کتنا سنجیدہ ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دور میں اس مسئلے پر پالیسی مختلف رہ چکی ہے۔

ایسے اقدام کے نتیجے میں زہریلی گیسوں کے اخراج کے دیگر بڑے ذمہ داران پر بھی واضح ہو گا کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھانے میں سر فہرست ملک بھی اس بارے میں اقدام پر تیار ہیں۔

واسکوو کہتے ہیں کہ چین بھی یہ دیکھ رہا ہے کہ امریکہ اس سلسلے میں کیا قدم اٹھاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ جانتا ہے کہ جاپان، جنوبی کوریا، کینیڈا اور بھارت جیسے ممالک اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ امریکہ کیسے آگے بڑھتا ہے۔

بہت سے ماہرین کے نزدیک اس صدی کا بیسواں عشرہ موسمی تبدیلیوں پر قابو پانے میں کامیابی یا ناکامی کے لئے اہم ہے۔

پورے کرہ ارض پر 1880 سے لیکر اب تک اوسطاً درجہ حرارت میں ایک اعشاریہ ایک ڈگری سیلسئیس اضافہ ہوا ہے۔ سائینسداں اس اضافے کا تعلق، شدید گرمی، قحط سالی، جنگلی آگ، طوفانوں اور اس طرح کی دیگر قدرتی آفات سے جوڑتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ صدی کی 80s کی دہائی سے درجہ حرارت میں اضافہ شدت اختیار کر گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام سن 2015 کے ماحولیاتی معاہدے میں عالمی لیڈروں نے زمین کا درجہ حرارت کم کرنے کا ہدف طے کیا تھا، لیکن زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے جو ماہرین کے نزدیک تباہ کن ہو گا۔

یونین آف کنسرنڈ سائینٹسٹس نامی تنظیم میں کلائمیٹ اینڈ انرجی پروگرام کی ڈائیریکٹر ریچل کلیٹس کہتی ہیں کہ عالمی لائحہ عمل میں بہت سی چیزوں کی گنجائش ہے ۔

وہ کہتی ہیں کہ ہمیں تیزی سے درجہ حرارت کم کرنے کے ہدف تک پہنچنے کی جانب چلنا ہو گا، کیونکہ اس وقت لوگ اس سے بھٹک جانے کے سنگین خطرے سے دوچار ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے متعلق اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل کے مطابق، سال 2030 تک عالمی سطح پر گیسوں کے اخراج کو 45 فیصد تک کم کرنے کی ضرورت ہے۔ سال 2050 تک یہ سطح صفر تک لانا ہو گی، جب کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کا اخراج تقریباً ختم ہو جائے گا، جو درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

بائیڈن انتظامیہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کو ملازمتیں پیدا کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر ان میں ہوا اور شمسی تمازت سے توانائی بنانے، برقیاتی گاڑیاں بنانے اور بنیادی ڈھانچے اور گھروں اور عمارتوں میں شمسی توانائی کے پینل لگانے کی ملازمتیں میسر ہونگی۔

یہ امریکہ میں انفرا سٹرکچر کے حوالے سے صدر بائیڈن کے 2.3 ٹریلین ڈالر کے مجوزہ منصوبے کا اہم ترین عنصر ہے۔

تاہم اس منصوبے کو کانگریس کی منظوری درکار ہوگی، جہاں ریپبلکن جماعت کے قانون ساز خاص طورپر اس منصوبے پر رقم کی فراہمی کیلئے بائیڈن کے تجویز کردہ ٹیکسوں میں اضافے کے سخت مخالف ہیں۔

دوسری جانب امریکہ کو ماحولیات کے معاملے پر شکوک و شبہات کا بھی سامنا ہے۔ اس کی وجہ ٹرمپ انتظامیہ کا پیرس معاہدے سے الگ ہونا اور ان ضوابط کو منسوخ کرنا تھا جو گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کیلئے بنائے گئے تھے۔

واشنگٹن میں قائم پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نسکانین سینٹر میں ماحولیات سے متعلق پالیسی کے ڈائیرکٹر جوزف مجکوٹ کہتے ہیں کہ اُن کے نزدیک اجلاس کے دوران، اعتماد سازی کیلئے کی جانے والی بات چیت اہم ترین حیثیت کی حامل ہے۔

تاہم صرف امریکہ ہی وہ واحد ملک نہیں ہے جسے ساکھ کا مسئلہ درپیش ہے۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ہلٹ مین کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی کا باعث بننے والے ملک چین نے سن 2060 تک گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانے کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم، گلوبل انرجی مانیٹر کے مطابق، چین ہی کوئلے سے بجلی بنانے والے پاور پلانٹ بنانے کیلئے رقم مختص کرتا جا رہا ہے۔ کوئلے سے بجلی بنانے کے عمل سے سب سے زیادہ زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔

دنیا کی آنکھیں بھارت کی جانب بھی دیکھ رہی ہیں کہ وہ اس سال نومبر میں گلاسگو میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کائمیٹ کانفرنس سے قبل گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کیلئے کیا اعلان کرتا ہے۔ بھارت بھی زہریلی گیسوں کے اخراج میں اضافے کا اہم ذمہ دار ہے۔

XS
SM
MD
LG