رسائی کے لنکس

کیا بھارت میں نریندر مودی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے؟


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے معیشت کی بدحالی دور کرنے کے بجائے ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جسے عوام نے پسند نہیں کیا۔ (فائل فوٹو)
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے معیشت کی بدحالی دور کرنے کے بجائے ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جسے عوام نے پسند نہیں کیا۔ (فائل فوٹو)

بھارت کی مشرقی ریاست جھار کھنڈ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو شکست ہو گئی ہے۔ یہ ایک سال میں پانچویں ریاست ہے جسے بی جے پی کی حکومت کھو چکی ہے۔

اس سے قبل راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھی بی جے پی کو کانگریس کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔

جھار کھنڈ میں پہلے مرحلے کے انتخابات 30 نومبر کو ہوئے تھے اور ووٹنگ کا آخری مرحلہ 20 دسمبر کو مکمل ہوا تھا۔

جھار کھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم)، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے اتحاد کو بی جے پی کے مقابلے میں واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔

ابتدائی نتائج کے مطابق، کانگریس اتحاد کو 48 اور بی جے پی کو 23 نشستیں ملی ہیں۔ جھار کھنڈ کی 81 رکنی اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے 41 نشستوں کی ضرورت ہے۔

قوی امکان ہے کہ جے ایم ایم کے رہنما ہیمنت سورین دوسری بات ریاست کے وزیرِ اعلٰی بن جائیں گے۔

ریاست کے موجودہ وزیرِ اعلیٰ بی جے پی کے رگھوبر داس ہیں جنہوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔

خیال رہے کہ رواں سال پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن، اس کے باوجود وہ مہا راشٹر میں حکومت نہیں بنا سکی۔ اس کی حلیف جماعت شیو سینا نے کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی۔

ہریانہ میں بھی بی جے پی کو واضح اکثریت نہیں مل سکی اور اسے ایک مقامی جماعت کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کرنا پڑی تھی۔

اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار ظفر آغا کہتے ہیں کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مقبولیت اب کم ہوتی جا رہی ہے۔ جھار کھنڈ میں انہوں نے زبردست انتخابی مہم چلائی تھی لیکن وہ بی جے پی کو نہیں جتوا سکے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ظفر آغا نے کہا کہ "نریندر مودی نے ہندوتوا کا جو ایجنڈہ شروع کیا ہے اسے عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ عوام حکومت کی بانٹو اور راج کرو کی پالیسی سے اتفاق نہیں رکھتے۔"

اُن کے بقول، "حکومت نے معیشت کی بدحالی دور کرنے کے بجائے ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جسے عوام نے پسند نہیں کیا۔"

ایک اور مقامی تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی کا کرشمہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اب لوگوں کو رجھانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو اپنا ہندوتوا کا ایجنڈہ ترک کر کے ملک کو درپیش مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔

بی جے پی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمنٹ جی وی ایل نرسمہا راؤ کے خیال میں جھار کھنڈ میں شکست کے باوجود بی جے پی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مستحکم حکومت صرف بی جے پی ہی دے سکتی ہے۔

البتہ، بی جے پی کے ترجمان وجے سونکر شاستری کا کہنا ہے کہ جھار کھنڈ کے نتائج بی جے پی کی امیدوں کے برعکس ہیں۔ اُن کے بقول، "ایسا لگتا ہے کہ پارٹی اپنے ترقیاتی ایجنڈے کو عوام کے سامنے رکھنے میں ناکام رہی ہے۔"

دریں اثنا، متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پیر کو چنئی میں ڈی ایم کے اور اس کی حلیف جماعتوں نے نئے قانون کے خلاف بڑا مظاہرہ کیا۔

اس کے علاوہ کانگریس پارٹی نے نئی دہلی میں راج گھاٹ پر دھرنا دیا جس میں سونیا گاندھی، راہول گاندھی اور ڈاکٹر من موہن سمیت متعدد بڑے رہنماؤں نے شرکت کی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG