رسائی کے لنکس

لندن: انتہائی دائیں بازو کی دہشت گردی روکنے میں ناکامی کا الزام


ایک سرگرم کارکن کے مطابق، برتے جانے والے ’’اِس سخت رویے کے سماجی پہلو بھی ہیں، جب کہ اس کے ذہنی اور جذباتی نوعیت کے اثرات نمودار ہوتے ہیں؛ ان کی وجہ سے اُن کی اور ہماری سوچ پر بھی اثرا پڑتا ہے؛ چونکہ انتہا پسند اِن معاملات کے بہانے اپنا کام دکھاتے ہیں‘‘

پیر کی صبح لندن کی ’فِنس بَری پارک‘ مسجد کے باہر ہونے والے حملے کے بعد، برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دائیں بازو کے شدت پسندوں کی تشدد کی کاررائیوں سے نمٹنے کے لیے مزید کوششیں کی جائیں۔

ویلز سے تعلق رکھنے والے، 47 برس کے ڈرین اوسبورن نے یہ کلمات کہتے ہوئے کہ، مبینہ طور پر، ’’میں تمام مسلمانوں کو ہلاک کرنا چاہتا ہوں‘‘، کے بعد اپنی گاڑی نمازیوں پر چڑھا دی تھی، جس میں ایک شخص ہلاک جب کہ کم از کم 11 زخمی ہوئے۔ لوگوں نے اُنھیں گاڑی سے نیچے اتارا اور پکڑ کر رکھا جب تک پولیس اہل کار موقعے پر نہیں پہنچے۔

دو روز قبل، سرگرم کارکن فیاض مغل نے اُسی مسجد میں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے، اُنھیں حملوں کے خدشات کا انتباہ دیا۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ حکام خدشات تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔

بقول اُن کے، ’’میں سمجھتا ہوں کہ حکومت خطرات کا اندازہ لگانے میں سست روی سے کام لے رہی ہے، جو اطلاعات اُنہی ذرائع سے آتے ہیں وہی آئے روز مسلمانوں کے خلاف بیانیے کا حصہ بنتے ہیں، جس کے باعث تشدد کے خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں‘‘۔

مغل نے ’ٹیل ماما‘ کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی ہے، جو رپورٹیں جمع کرتی ہے اور مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کی اطلاع فراہم کرتی ہے۔ ویب سائٹ پر حالیہ دِنوں ہونے والے واقعات درج کیے جاتے ہیں، جن میں جسمانی تشدد، کھڑکیوں کا توڑا جانا، کاروں پر سور کا گوشت ڈالنا، مسلمان ڈرائیوروں پر غلاظت پھینکنا شامل ہیں۔

تنظیم نے کہا ہے کہ گذشتہ ماہ مانچیسٹر پر ہونے والے حملے کے بعد مسلمان مخالف نفرت پر مبنی جرائم میں پانچ گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

فیاض مغل نے کہا ہے کہ برتے جانے والے ’’اِس سخت رویے کے سماجی پہلو بھی ہیں، جب کہ اس کے ذہنی اور جذباتی نوعیت کے اثرات نمودار ہوتے ہیں؛ ان کی وجہ سے اُن کی اور ہماری سوچ پر بھی اثرا پڑتا ہے؛ چونکہ انتہا پسند اِن معاملات کے بہانے اپنا کام دکھاتے ہیں‘‘.

XS
SM
MD
LG