رسائی کے لنکس

پاکستان کے لیے آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو قوم سے خطاب کے دوران الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت کو گرانے کی بین الاقوامی سازش کی جا رہی ہے۔امریکہ کے محکمۂ خارجہ اور وائٹ ہاؤس دونوں نے۔ اگرچہ ان الزامات کی پر زور تردید کی ہے البتہ حالیہ ہفتوں میں کئی جلسوں میں وزیرِ اعظم اور حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت مسلسل یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ حکومت کے خلاف سازشیں اس لیے کی جا رہی ہیں کیوں کہ وہ بغیر کسی دباؤ میں آئے آزاد خارجہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

سوات میں عوامی اجتماع سے خطاب میں وزیرِ اعظم عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی جنگ امریکہ کی غلامی کے خلاف ہے جب کہ اپنی ایک تقریر میں انہوں نے بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی کی بھی تعریف کی تھی۔

جمعے کو اسلام آباد میں سیکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب میں بھی وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ساڑھے تین سال اقتدار میں رہنے کے دوران انہوں نے کوشش کی کہ ملک کی خارجہ پالیسی کو آزاد رکھا جائے اور کسی بلاک کی سیاست سے بچ کر رہا جائے جب کہ صرف پاکستان کے عوام کے فائدے کے تحت خارجہ پالیسی کے فیصلے کیے جائیں۔ پاکستان کسی کے حکم کا محتاج نہ ہو۔

عمران خان نے اس کا الزام ایک بار پھر اپنے سیاسی مخالفین پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حالات اپوزیشن رہنماؤں کی ماضی کی پالیسی کی بدولت ہوئے ہیں، جنہوں نے قومی مفادات کو اشرافیہ کے مفادات پر قربان کیا۔ ان کے خیال میں خارجہ پالیسی میں دوسرے ممالک پر انحصار سے پاکستان کو بڑا نقصان ہوا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمگیریت کے نظریے نے دنیا کو ایک گاؤں بنا کر رکھ دیا ہے۔ ذرائع مواصلات کی ترقی نے معاشی لحاظ سے ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھا دیا ہے ۔ کسی ایک ملک کے اقدامات یا درپیش مسائل کے حل کے لیےپالیسی سے اس کے پڑوسی ملک ہی نہیں ، دنیا کا بیشتر حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔

ایسے میں کیا کوئی ملک مکمل طور پر آزادانہ اور خودمختار خارجہ پالیسی اختیار کر سکتا ہے اور کیا خارجہ پالیسی کی خود مختاری کا راستہ کسی ملک کی معاشی خود انحصاری سے لازمی طور پر مشروط ہے؟ پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو ایک آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے سے کون روک رہا ہے اور کیا پاکستان کو ایک آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کے لیے درکار وسائل اور معاشی خود انحصاری میسر ہے؟ اگر نہیں تو اس کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں اورکیا یہ وجوہات اندرونی ہیں یا بیرونی؟

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کو آزاد بنانے کے جو وعدے اور دعوے کیے تھے، انہیں عملی شکل دینے کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل رہیں اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے حکومت نے جو اقدامات کیے وہ کتنے تسلی بخش یا ناکافی تھے؟

یہ اور ایسے بہت سے سوالات کا جائزہ اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ماہرین اور تجزیہ کاراپنے اپنے انداز میں لے رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ نے بھی ان سوالات کے جوابات کے لیے خارجہ امور اور معیشت کے بعض ماہرین سے رابطہ کیا ، ان کے تجزیوں کی تلخیص کچھ یوں ہے۔

’پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد کبھی بھی نہیں رہی

بین الاقوامی امور کے ماہر مصنف اور صحافی احمد رشید کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کا حامی ملک تصور کیا جاتا تھا۔ خاص طور پر فوجی حکومتوں کے ادوار میں خارجہ پالیسی سے متعلق جو بھی فیصلے کیے جاتے رہے اس میں امریکہ کا ساتھ دیا جاتا رہا۔ ان کے بقول کہا تو جاتا تھا کہ پاکستان کی ایک آزاد خارجہ پالیسی ہے مگر سرد جنگ میں پاکستان نے کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ متوازن خارجہ پالیسی قرار نہیں دی جاسکتی تھی۔ ماضی کے سویت یونین سے پاکستان کے سفارتی تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے البتہ اب ان میں تھوڑا فرق ضرور آیا ہے۔

احمد رشید کا کہنا تھاکہ آزاد خارجہ پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ملک کسی کی طرف داری نہ کرے اوراس کا جھکاؤ کسی ایک جانب یا ایک بلاک کی جانب نہ ہو۔

'عمران خان کے الزامات کا پاکستان امریکہ تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:20 0:00

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جب سیاست دان برسرِ اقتدار نہیں ہوتے ، ان کی حکومت ختم ہو رہی ہوتی ہے یا انہیں اقتدار سے نکالا جا رہا ہوتا ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد کبھی بھی نہیں رہی اور مستقبل میں بھی ایسا ہونے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔

پاکستان کے معاشی حالات کا ذکر کرتے ہوئے احمد رشید کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کے معاشی حالات خراب ہوتے ہیں اور آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کے پاس جانا ہوتا ہے تو امریکہ کی شرائط کو من و عن قبول کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے زیرِ اثر مالیاتی اداروں سے لیے ہوئے قرض اور اقتصادی حالات کے باعث پاکستان کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں۔ان کے بقول مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان کے لیے آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنا مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور آئندہ بھی رہے گا اور اس وقت تک رہے گا جب تک پاکستان معاشی خود انحصاری حاصل نہیں کرلیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد خارجہ پالیسی کے لیے بہترین اقتصادی پالیسیاں اپنانا اہم ہیں۔

’ملک کے معاشی اور سیاسی مفادات خارجہ پالیسی کا تعین کرتے ہیں‘

پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری کا کہنا تھا کہ آزاد خارجہ پالیسی تو ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے لیکن آج کا دور گلوبلائزیشن کا دور ہے جس میں ممالک کو بہت ساری رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی میں ممالک کو اپنے مفادات کے حصول کے لیےسمجھوتے بھی کرنے پڑتے ہیں۔ امریکہ جیسا طاقتور ملک بھی اپنے مفادات یا اپنے حلیف ممالک کے ساتھ یکساں مفادات کے لیے اپنی اعلان کردہ پالیسی سے بعض اوقات آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ یوں اِس لحاظ سے دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جو مکمل طور پر آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہو۔

انہوں نے کہا کہ ایک باضابطہ طریقہ ہے جس کے تحت ہر ملک اپنے قومی مفاد میں خارجہ پالیسیاں بناتا ہے۔ ان کی رائے میں کوئی بھی ملک جتنا معاشی طور پر مضبوط اور سیاسی لحاظ سے مستحکم ہو گا اُس کی خارجہ پالیسی اتنی ہی آزاد ہو گی۔

تحریک عدم اعتماد: آگے کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:50 0:00

اسلام آباد کے دیگر ممالک سے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے خورشید قصوری نے کہا کہ ماضی میں پاکستان کے بیک وقت امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات اچھے رہے ہیں۔ یہ ایک کامیاب خارجہ پالیسی ہی کی نشانی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی مثال سب کے سامنے ہے۔ نئی دہلی کی کوشش رہی ہے کہ وہ امریکہ کے قریب رہے جب کہ امریکہ نےچین کو مشکل وقت دینے کے لیے بھارت کو اسٹریٹیجک پارٹنر بنارکھا ہے۔ لیکن دوسری جانب بھارت کے روس سے بھی تعلقات ہیں ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ملک اپنے مفاد میں خارجہ پالیسیوں کو ترتیب دیتا ہے اور جہاں اُن کے مفادات ہوتے ہیں وہ لچک کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔

’عالمگیریت کے اس دور میں بے لچک خارجہ پالیسی رکھنا ممکن نہیں‘

کراچی کی نجی جامعہ حبیب یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں کوئی ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی سخت مؤقف اختیار کرے اور اس میں لچک کی کوئی گنجائش نہ ہو۔

دیگر ممالک کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وینزویلا، شمالی کوریا اور دیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آج کی گلوبلائز دنیا میں الگ تھلگ نہیں رہا جاسکتا۔ یوکرین کے خلاف ماسکو کی جارحیت کے باوجود جرمنی نے روس سے گیس لینا بند نہیں کی کیوں کہ آج کے دور میں معاشی مفادات سب سے زیادہ مقدم رکھے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کی معیشت کو بعض سنگین مسائل کا سامنا ہے جن میں روپے کی تیزی سے گر تی ہوئی قدر بھی شامل ہے۔ ملک میں بجلی کا بڑا شارٹ فال بڑھ رہا ہے جب کہ لوگ بدترین مہنگائی کا شکار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دنیا کا کوئی ملک بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ معاشی لحاظ سے مکمل طور خود کفیل ہے جب کہ پاکستان کو برآمدات کے خام مال کے لیے بھی باہر دیکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا دارو مدار بہت حد تک درآمدات پر ہے۔ ایسے میں پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ خارجہ پالیسی میں کوئی سخت ترین حکمتِ عملی اپنائے بلکہ اسی نظام میں رہتے ہوئے اپنے معاشی مفادات کے حصول کی کوئی راہ نکالنی ہے۔

انہوں نےبتایا کہ اس وقت پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں بھی ہے جب کہ ہماری برآمدات کا بہت بڑا حصہ یورپی ممالک اور امریکہ کو جاتا ہے۔ ایسے میں قیادت کے منصب پر بیٹھے لوگوں کو عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے بجائے ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔

"معاشی طور پر مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے آزاد خارجہ پالیسی صرف خواب ہے"

معاشی ماہر اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈوپلمنٹ اکنامکس میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالجلیل کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی ممکنہ استعداد کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس پر تشکیل پاتی ہے کہ آپ کی قوت اور طاقت کتنی ہے۔ اگر کوئی ملک معاشی لحاظ سے انتہائی طاقتور ہے، اس کی جغرافیائی اہمیت ہے اور اس کے پاس کسی ایسی چیز کاذخیرہ یا وسائل موجود ہیں، جس کی وجہ سےاس کا انحصار بیرونی ممالک پر نہ ہو ۔ تب تو کوئی ملک کسی حد تک آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دے سکتا ہے۔ لیکن اگر معاملہ الٹ ہے تو پھر اس ملک کے پاس صرف چند راستے ہی بچتے ہیں، جن میں سے انتخاب کرنا پڑتا ہے ۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالجلیل کے مطابق پاکستان کے معاشی حالات کبھی اس قابل نہیں رہے کہ وہ اپنے لیے آزاد خارجہ پالیسی کا تعین کر سکے۔ قیامِ پاکستان سے ہی ملک کو معاشی اور سیکیورٹی امداد کی ضرورت رہی ہے۔

ان کے خیال میں پاکستان 1977 میں فوجی اقتدار آنے کے بعد سے معاشی طور پر جدوجہد کررہا ہے۔ اس وقت فوجی قیادت نے ملک کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ بنانے کا آغاز کیااور یہ سفر اب تک جاری ہے۔

ڈاکٹر جلیل کہتے ہیں کہ 45 سال کا یہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی پاکستانی اسی حالت میں ہیں ۔ ایسے میں پاکستاب کی خارجہ پالیسی کیسے مضبوط تصور کی جا سکتی ہے۔ ان کے بقول مضبوط معیشت کی منزل حاصل کرنے کے لیے نہ تو سوچا گیا اور نہ ہی مستقل مزاجی سے کام کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی اور اب بھی پاکستان کے پاس سب سے اہم چیز اس کا محل وقوع ہی ہے۔ عالمی طاقتوں کے لیے ہمیشہ سے پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اہم رہی ہے۔ پہلے امریکہ اور اب چین ہماری اسی پوزیشن کو استعمال کر رہا ہے اور چین اس راہداری کو استعمال کرکے ہمیں مشترکہ خوشحالی کی تصویردکھا رہا ہے۔ اس حد تک پاکستان کے لیے چین کو دیکھنا اس کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG