رسائی کے لنکس

کراچی کے پولیس افسر چوہدری اسلم پر بننے والی فلم کا ٹیزر جاری


فلم کا پوسٹر دو سال قبل اپریل 2019 میں سامنے آیا تھا۔
فلم کا پوسٹر دو سال قبل اپریل 2019 میں سامنے آیا تھا۔

کراچی کے ایک متنازع مقتول پولیس افسر سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) چوہدری اسلم کی زندگی پر بنائی گئی فلم 'چوہدری، دی مارٹر' (چوہدری، شہید) کا ٹیزر جاری کر دیا گیا ہے۔ البتہ فلم کی ریلیز کی حتمی تاریخ کا اعلان ہونا باقی ہے۔

فلم کا پوسٹر دو سال قبل اپریل 2019 میں سامنے آیا تھا۔ فلم میں چوہدری اسلم کا کردار نبھانے والے اداکار طارق اسلم نے ادا کیا جنہوں نے خود بھی پولیس فورس میں خدمات انجام دی ہیں۔

فلم 'چوہدری' میں پولیس کے اس سابق افسر کی زندگی اور موت کو دکھایا گیا۔ چوہدری اسلم جنوری 2014 میں کراچی میں ایک خود کش حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

ایس ایس پی چوہدری اسلم کو ایک جانب ایک بڑا طبقہ ہیرو قرار دیتا ہے جب کہ ان کے ناقدین انہیں ماورائے عدالت لوگوں کی اموات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

چوہدری اسلم کی ہلاکت سے قبل 2011 میں ان کے گھر پر بھی خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ اور ان کے اہلِ خانہ محفوظ رہے تھے البتہ چھ پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ اس حملے کو چوہدری اسلم نے دہشت گردوں کے خلاف 'اعلانِ جنگ' قرار دیا تھا۔

فلم کے ایک منٹ کے ٹیزر میں آئٹم سانگ، پولیس کی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں فائرنگ، گاڑیوں کے سائرن بجاتے ہوئے چھاپے کے لیے روانگی، جرم کے مقام پر پولیس کا شواہد جمع کرنا اور پھر ایس ایس پی چوہدری اسلم کا اہلکاروں کی قیادت کرتے مخصوص انداز میں ہاتھ میں پستول تھامے، سفید شلوار قمیص میں دکھایا گیا۔

فلم میں اداکار شمعون عباسی بھی پولیس افسر کا کردار نبھا رہے ہیں جو چوہدری اسلم کے اسکواڈ کا حصہ ہیں۔ فلم کے ٹیزر میں ان کو بھی ایکشن میں دکھایا گیا۔

فلم میں گینگسٹز کو بھی دکھایا گیا ہے جو کہ کراچی میں خوف کے لیے سرِ عام لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ اور جن کے خلاف چوہدری اسلم سرگرم نظر آ رہے ہیں۔

ٹیزر کے ایک سین میں کچھ لوگوں نے ایک شخص کو کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے جس نے گلے میں پھولوں کا ہار پہنا ہوا ہے جس سے واضح ہو رہا ہے کہ فلم میں سیاست اور جرم کا گٹھ جوڑ بھی دکھایا گیا ہوگا۔

مقامی میڈیا میں فلم کے پہلے ٹیزر پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس میں دکھایا جانے والا گلیمر بنیادی طور پر غیر ضروری ہے۔ ٹیزر کا آغاز چونکہ آئٹم سانگ سے کیا گیا ہے تو فلم کے حوالے سے ناظرین کو اپنی رائے قائم کرنے میں مشکل پیش آئے گی کہ اس میں پولیس افسر کے کردار کو کیسے دیکھا جائے۔

مقامی میڈیا کے مطابق ٹیزر میں مسلسل تیز موسیقی کے ساتھ شاٹس کی وجہ سے ایکشن بہت زیادہ نظر آتا ہے۔

فلم کے ہدایت کار عظیم سجاد ہیں جب کہ مشہور اداکار ارباز خان، اصفر مانی اور عدنان ٹیپو بھی فلم کا حصہ ہیں۔

پاکستان کے انگریزی اخبار 'ایکسپریس ٹریبیون' کی رپورٹ کے مطابق عظیم سجاد نے فلم کو چوہدری اسلم کے لیے خراج تحسین سے تعبیر کیا ہے۔

واضح رہے کہ فلم میں ارباز خان کراچی کے ایک اور متنازع پولیس افسر ایس ایس پی راؤ انوار کا کردار نبھا رہے ہیں۔

عظیم سجاد کے بقول فلم کی 90 فی صد عکس بندی کراچی میں ہوئی ہے جب کہ فلم کا 10 فی صد حصہ ایبٹ آباد میں شوٹ کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں پیش آنے والے بعض واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ فلم مقامی اور بین الاقوامی ناظرین کی توجہ حاصل کر سکے گی۔

'ایکسپریس ٹریبیون' کی رپورٹ کے مطابق پولیس کے اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) نے بھی اداکاروں کو فلم کے لیے تربیت دی تھی۔

واضح رہے کہ چوہدری اسلم 80 کی دہائی میں پولیس فورس کا حصہ بنے تھے اور ایک جونیئر افسر سے ترقی کرتے کرتے ایس ایس پی کے عہدے تک پہنچے تھے۔

چوہدری اسلم کے گھر پر جب 2011 میں خود کش حملہ کیا گیا تھا تو جائے وقوع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اُنہیں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔ لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایسی بزدلانہ کارروائی کریں گے اور ان کے بچوں پر حملہ کیا جائے گا۔

اس دھماکے میں سات من سے زائد بارود استعمال کیا گیا تھا۔

کراچی میں پیرا ملٹری فورس رینجرز کی معاونت سے 2013 میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔ اس آپریشن کے شروع ہونے کے صرف تین ماہ بعد پولیس کے اس متنازع افسر پر 2014 کے پہلے ہفتے میں کراچی کے لیاری ایکسپریس وے پر خود کش حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں پولیس کے تین دیگر اہلکار بھی مارے گئے تھے۔

اس حملے کا مقدمہ کراچی میں پی آئی بی کالونی کے تھانے میں انسپکٹر ملک عادل کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ اور ترجمان شاہد اللہ شاہد کو نامزد کیا گیا تھا۔

پاکستان میں فوجی عدالتیں قائم ہونے کے بعد 2016 میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چار ملزمان کی سزائے موت کی توثیق کی تھی۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا جن مجرمان کی سزا کی توثیق کی گئی ہے ان میں چوہدری اسلم پر حملے میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG