رسائی کے لنکس

چین نے سرکاری حکام پر آئی فونز کے استعمال پر پابندی لگا دی: رپورٹ


امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' نے رپورٹ کیا ہے کہ چین نے اپنی مرکزی حکومتی ایجنسیوں کے آفیشلز کو حکم دیا ہے کہ وہ ایپل کے آئی فونز یا دیگر غیر ملکی برینڈز کی ڈیوائسز کو دفتر لانے یا امور کی انجام دہی کے لیے استعمال نہ کریں۔

اخبار نے اس معاملے سے جڑے افراد کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ یہ احکامات حالیہ ہفتے میں اعلیٰ حکام نے اپنے اسٹاف کو دیے تھے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ احکامات کس حد تک دیے گئے ہیں۔

یہ پابندی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب آئندہ ہفتے ایپل کا ایک ایونٹ ہونے جا رہا ہے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' کی رپورٹ میں ایپل کے علاوہ دیگر موبائل فون میکرز کا نام نہیں لیا گیا۔

اس معاملے پر رائٹرز نے ایپل اور چین کے اسٹیٹ کونسل انفارمیشن آفس سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

چین ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے غیر ملکی ٹیکنالوجیز پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین نے ریاست سے منسلک اداروں بشمول بینکوں سے کہا ہے کہ وہ مقامی سافٹ ویئر پر منتقل ہوں اور ڈومیسٹک چپ مینوفیکچرنگ کو فروغ دیں۔

چین اپیل کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے اور وہ اپنی آمدنی کا تقریباً پانچواں حصہ وہاں سے حاصل کرتا ہے۔

بیجنگ نے سال 2020 میں اس مہم کو اس وقت آگے بڑھایا جب ان کے رہنماؤں نے غیرملکی مارکیٹوں اور ٹیکنالوجی پر انحصار کم کرنے کے لیے ایک 'ڈوئل سرکولیشن' گروتھ ماڈل تجویز کیا کیوں کہ ڈیٹا سیکیورٹی پر چین کے خدشات بڑھ گئے تھے۔

مئی میں چین نے بڑے سرکاری اداروں پر زور دیا کہ وہ ٹیکنالوجی میں خود انحصاری حاصل کرنے کے لیے اس کی شروع کی گئی مہم میں اہم کردار ادا کریں۔

ادھر امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی بہت زیادہ ہے کیوں کہ واشنگٹن اپنی چپ صنعت کو مسابقتی رکھنے کے لیے ضروری آلات تک چین کی رسائی روکنے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ بیجنگ نے معروف امریکی کمپنیوں بشمول طیارہ ساز کمپنی بوئنگ اور چپ کمپنی مائیکرون ٹیکنالوجی سے شپمینٹ محدود کردی ہے۔

چین کی حالیہ پابندی امریکہ کی ان پابندیوں کی عکاسی کرتی ہے جو اس نے چینی اسمارٹ فون کمپنی ہواوے ٹیکنالوجیز اور شارٹ ویڈیو پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر عائد کی تھی۔

فورم

XS
SM
MD
LG