رسائی کے لنکس

چینی معیشت اور یوان کی شرح تبادلہ


چینی معیشت اور یوان کی شرح تبادلہ
چینی معیشت اور یوان کی شرح تبادلہ

عالمی معاشی میدان میں اس وقت سب سے زیادہ نقد دولت چین کے پاس ہے۔ دنیا کی کل مجموعی پیداوار میں سے ایک چوتھائی کے حصہ دارکی حیثیت سے بیشتراملاک اور اثاثہ جات کا مالک امریکہ ہے ۔ لیکن امریکہ اپنے خرچ ہونے والے ہر ڈالر کا 40 فی صد پھر ادھار لیتا ہے، اس لیے اس کی آمدنی کا بیشتر حصہ اس قرضے کے سود کی ادائیگی میں خرچ ہو تاہے۔ جو اس نے چین سے لے رکھا ہے ۔

واشنگٹن کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ڈومنیکو لمبارڈی کا کہناہے کہ ظاہر ہے کہ چین امریکہ کو سب سے زیادہ قرض دینے والا ملک ہے۔ جس کے نتیجے میں چین کسی بھی دو طرفہ بات چیت میں اپنا دباؤاستعمال کر سکتا ہے اور ہم چین اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں اس کا اثر دیکھ رہے ہیں۔

یہ ایک ایسے ملک کے لیے بڑی کامیابی ہے جہاں 30 سال پہلے تقریبا90 فی صد آبادی غربت میں رہتی تھی۔چائنا ورلڈ بینک کے سابق سربراہ، اور واشنگٹن کے تھنک ٹینک کارنیگی اینڈاومنٹ کے تجزیہ کار یوکانگ ہوانگ کہتے ہیں کہ چین اب دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے ۔ توقع ہے کہ اگلے دس سے پندرہ برسوں میں یہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔

ہر سال 8 فی صد کی رفتار سے ترقی کرنے والی معیشت نے چین کو اقتصادی سوپر پاور کے درجے پر لاکھڑا کیا ہے ۔

کچھ عرصے سے چین یونان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یورپ میں اقتصادی بحران کی وجہ سے اس کی برآمدات پر مبنی معیشت متاثر ہوسکتی ہے ۔ لیکن چین کی مالیاتی پالیسیوں پر سخت تنقید بھی کی جاتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق چین اپنی برآمدات سستی رکھنے کےلیے اپنی کرنسی کی قیمت کم رکھتا ہے۔ پچھلے سال شرح تبادلہ میں تبدیلیاں لانے کے وعدے کے باوجود چینی یوان کے شرح تبادلہ میں صرف 5 فی صد اضافہ ہوا ۔ امریکہ چین کے شرح تبادلہ کو تجارت میں خسارے اور پیداوار سے منسلک کئی نوکریوں کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ لیکن کارنیگی اینڈاؤمنٹ کے ہوانگ کہتے ہیں کہ چینی کرنسی کی قیمت میں اضافے کے نتیجے میں اس کے برآمدات کی موجودہ مارکیٹ متاثر ہو سکتی ہے۔ اور ممکن ہے کہ چین کو جاپان کا ماڈل اختیار کرنا پڑے جس کے تحت اسے دوسری مارکٹو ں اور ٹکنالوجی کے شعبے میں امریکہ کے مقابلے پر اترنا پڑے۔

ہوانگ کا کہناہے کہ میرے نزدیک شرح تبادلہ میں اضافے کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ تجارت میں مسائل بڑھتے ہیں، کم نہیں ہوتے۔ امریکی صارفین کا نقصان ہوتاہے، فائدہ نہیں۔ لیکن شرح تبادلہ میں اضافے سے کسے فائدہ ہو گا؟ دوسری ابھرتی ہوئی معیشتوں کو۔

ہوانگ کہتے ہیں کہ اس صورت میں امریکی کمپنیاں امریکہ میں نوکریاں بڑھانے کے بجائے دوسرے ملکوں میٕں کم داموں پر مزدور تلاش کر لیں گی۔

لیکن بعض دوسرے ماہرین کے مطابق چینی کرنسی کی کم قیمت کی وجہ سے دنیا کی دوسرے بڑی معیشت دنیا کے سب سے غریب ملکوں میں بھی شمار کی جاتی ہے۔ چین میں فی آدمی قومی پیداوار صرف چارہزار ڈالرسالانہ ہے۔ افراط زر اور آمدنی میں عدم توازن کی وجہ سے مسائل کا بھی خدشہ ہے۔

چین کے مرکزی بینک کے مطابق ان مسائل کا مقابلہ کرنے کےلیے ممکن ہے اسے شرح تبادلہ میٕں مزید تبدیلیاں کرنی پڑیں۔ چین امریکی ڈالر اور یورپی یورو کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی قیمت بھی بڑھانے کے لئے اپنے پاس موجود غیر ملکی قرضوں کے حجم میں تنوع لانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن چین یہ بھی جانتا ہے کہ عالمی سطح پر اپنی پیداوار کی مانگ برقرار رکھنے کے لئے اسے ایک تندرست عالمی معیشت کی ضرورت ہے ۔

XS
SM
MD
LG