رسائی کے لنکس

چین کے کیمپوں میں 10 لاکھ مسلمانوں پر ترکِ مذہب کا دباؤ ہے: ہیومن رائٹس گروپ


چین میں کاروبار کرنے والے میر امان اپنی بیٹیوں شکیلہ اور شہناز کے ساتھ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔ ان کی مسلمان چینی بیوی کو چینی حکام نے نامعلوم اصلاحی کیمپ میں بھیج دیا ہے۔ اور رابطے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ 29 نومبر 2018
چین میں کاروبار کرنے والے میر امان اپنی بیٹیوں شکیلہ اور شہناز کے ساتھ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔ ان کی مسلمان چینی بیوی کو چینی حکام نے نامعلوم اصلاحی کیمپ میں بھیج دیا ہے۔ اور رابطے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ 29 نومبر 2018

انسانی حقوق کی 16 بڑی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ چین نے تقریباً 10 لاکھ ایغور نسل اور سنکیانگ کے دوسرے مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر جس طرح حراستی کیمپوں میں رکھا ہے، اس کی بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہئیے۔

ان تنظیموں نے انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ ایک قرار داد منظور کرے جس کے تحت سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورت حال معلوم کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی مشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کونسل اپنا اجلاس بعد میں اس مہینے شروع کر رہی ہے۔

یہ مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی نے چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا۔

انٹرنیشنل سروس فار ہیومن رائٹس نامی گروپ سے منسلک سارہ بروکس نے اِسے ایک اہم موڑ قرار دیا ہے۔ سارہ بروکس کا کہنا تھا کہ ایک ایسا مرحلہ آیا تھا، جب حیرت انگیز طور پر چینی حکومت اور جنیوا بھیجے جانے والے اس کے وفد کو ، کمیٹی کے ماہرین کے سامنے حقیقی معنوں میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں سخت سوالوں کے جوابات دینے پڑے۔

چین اب یہ اعتراف کرتا ہے کہ اس نے یغور اور دوسرے ترک نژاد مسلمانوں کو سیاسی اور پیشہ وارانہ تعلیم کے کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو دائریکٹر کین راتھ کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت کا دعویٰ ہے وہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے توڑ کی کوشش کر رہی ہے، جب کہ اس کا یہ دعویٰ غلط ہے۔

کین راتھ کہتے ہیں کہ حراست میں رکھے جانے کی اس کاروائی کا مقصد، ترک نژاد مسلمانوں کی نسلی اور مذہبی شناختوں کو مٹانا ہے، تا کہ صرف چینی حکومت، کمیونسٹ پارٹی اور تا حیات لیڈر ژی جن پنگ کے ساتھ ان کی وفاداری کو یقینی بنایا جا سکے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں بند لوگوں کو زبردستی مخصوص سیاسی نظریات کی تعلیم دی جاتی ہے یا ان پر اپنے عقائد ترک کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے، اور ان سے بار بار بدسلوکی کی جاتی ہے، اور بعض صورتوں میں ایذا رسانی بھی کی جاتی ہے۔

انسانی حقوق کے گروپس کا یہ بھی کہنا ہے کہ حراست میں لئے گئے لوگوں کو اپنے خاندانوں سے رابطہ نہیں کرنے دیا جاتا اور انہیں وکلا تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ ان کی حراست کا سلسلہ کب ختم ہو گا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل کوُمی نائیدو نے سکنیانگ کو ایک بیرونی قید خانے سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اعلی طرز کا مقام ہے جسے مخصوص انداز کی سیاسی اور نظریاتی تعلیم، زبردستی ثقافتی انضمام، بلا روک ٹوک گرفتاریوں اور لوگوں کو لاپتا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسلی اقلیتوں کو خود ان کی اپنی سرزمین پر اجنبی بنا دیا گیا ہے۔

نائیڈو کا کہنا تھا کہ حراست میں لئے گئے افراد کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ حکومت کو اُن بچوں کے لئے یتیم خانے کھولنے پڑے ہیں، جن کے والدین کو نظریاتی تعلیم دی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں کی بار بار کی درخواستوں کے باوجود چین غیر جانبدار مبصرین کو ان علاقے تک رسائی نہیں دے رہا۔

نائیدو کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ چین کو اس کی جابرانہ کاروائیوں کے لئے جوابدہ بنایا جائے۔

ہیومن رائیٹس واچ کے کین راتھ کہتے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب بعض مسلمان ممالک کے لئے سفری پابندیوں کا اعلان کیا، تو دنیا بھر میں، برہمی کا اظہار کیا گیا، لیکن جب چین نے نامعلوم مدت کے لئے حراست کے زور پر10 لاکھ مسلمانوں کو اسلام ترک کرنے پر مجبور کیا، تو رد عمل میں بیشتر خاموش رہے۔

کین راتھ کا کہنا ہے کہ سچ کو سامنے لانے کے لئے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کے ایک مشن کو سنکیانگ بھیجا جائے۔ انہوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

چین میں سنکیانگ علاقے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے، جہاں ایک کروڑ کے لگ بھگ یغور رہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG