رسائی کے لنکس

مافیا ڈان پابلو ایسکوبار کے پالتو دریائی گھوڑے جو اب کولمبیا کے لیے 'فالتو' ہیں


کولمبیا کے دریائی گھوڑوں کو 'کوکین ہیپوز' بھی کہا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)
کولمبیا کے دریائی گھوڑوں کو 'کوکین ہیپوز' بھی کہا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)

لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا کو ان دنوں ایک عجیب پریشانی کا سامنا ہے اور وہ ہے ملک میں دریائی گھوڑوں کی بڑھتی تعداد۔ سننے میں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں لگتی لیکن یہ جانور کولمبیا کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔

کولمبین حکومت ان کی تعداد کو قابو میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کولمبیا نے گزشتہ ہفتے ہی ان دریائی گھوڑوں کو ناگوار یا قابض جانور قرار دیا ہے جس کے بعد انہیں مار کر ان کی تعداد کم کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

کولمبیا کے دریائی گھوڑوں کو 'کوکین ہیپوز' بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں؟ یہ تو آپ آگے چل کر جانیں گے لیکن پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پانچ کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والا یہ ملک اس آبی جانور سے تنگ کیوں ہے اور اس کے خلاف ایسے اقدامات کیوں کر رہا ہے؟

دریائی گھوڑے یا ہیپوپوٹومس سے پریشانی کیوں؟

دریائی گھوڑے یا 'ہیپوپوٹومس' افریقہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہ خشکی اور پانی میں رہنے والا ایک بڑا جانور ہے جس کا وزن 1.8 ٹن تک ہوتا ہے۔

ہاتھی جیسے بھاری بھرکم یہ دریائی گھوڑے افریقہ میں ہر سال سینکڑوں لوگوں کی موت کی وجہ بنتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ان کا فضلہ آبی حیات اور ماحول کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ فصلوں اور لوگوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔

سائنس دان ان دریائی گھوڑوں کو پابلو ایسکوبار کا 'ایکولوجیکل ٹائم بم' قرار دے چکے ہیں۔ (فائل فوٹو)
سائنس دان ان دریائی گھوڑوں کو پابلو ایسکوبار کا 'ایکولوجیکل ٹائم بم' قرار دے چکے ہیں۔ (فائل فوٹو)

کولمبیا کو بھی ان جانوروں سے یہی پریشانی ہے۔ یہ دریائی گھوڑے جو کئی برسوں سے یہاں افزائش کر رہے ہیں اور اب تعداد میں 100 سے زائد ہو چکے ہیں، کولمبیا کے دریائے میگڈیلینا پر رہ رہے ہیں۔

یہ جانور اس دریا کی آبی حیات اور ماحول کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دوسری جانب ان کی مسلسل بڑھتی تعداد مقامی لوگوں اور ماہی گیروں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ افریقہ کے بعد دریائی گھوڑے کولمبیا میں سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔

لیکن افریقہ میں پایا جانے والا یہ جانور کولمبیا تک کب اور کیسے پہنچا؟ اس کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔

کوکین ہیپوز: پابلو ایسکوبار کا 'ایکولوجیکل بم'

مافیا ڈان پابلو ایسکوبار کا نام تو آپ نے بھی کہیں نہ کہیں سنا یا پڑھا ہوگا۔ کولمبیا میں دہشت کی علامت اور بدنامِ زمانہ مافیا ڈان پابلو ایسکوبار ایک منشیات فروش گروہ کے سرغنہ تھے۔

1980 کی دہائی میں ایسکوبار کو منشیات کے کاروبار کے علاوہ اغوا، قتل اور بے شمار جرائم کا ذمے دار قرار دیا جاتا تھا۔ ان کا شمار اس وقت دنیا کے امیر ترین افراد میں بھی ہوتا تھا۔

پابلو ایسکوبار نے 1981 میں امریکہ کے ایک چڑیا گھر سے چار دریائی گھوڑے درآمد کیے تھے۔ انہوں نے ان دریائی گھوڑوں کو 'ہاسیئنڈا نیپولیس' میں قائم اپنے نجی چڑیا گھر میں رکھا تھا۔

ہاسیئنڈا نیپولس ایسکوبار کی اس پرتعیش جاگیر کا نام تھا جو دارالحکومت بوگوٹا سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم تھی۔

کولمبیا کے 'ڈرگ لارڈ' پابلو ایسکوبار (فائل فوٹو)
کولمبیا کے 'ڈرگ لارڈ' پابلو ایسکوبار (فائل فوٹو)

ایسکوبار کے ذاتی چڑیا گھر میں فلیمنگو، زرافے، زیبرے اور کینگرو بھی تھے۔

پابلو ایسکوبار 1993 میں پولیس کے ہاتھوں مارے گئے۔ ان کی جاگیر حکومت نے اپنے قبضے میں لے لی اور یہاں موجود جانوروں کو چڑیا گھروں کو فروخت کر دیا گیا۔ لیکن دریائی گھوڑے وہیں کے وہیں رہے۔

'ہیپوز' کو منتقل کرنا ایک مشکل کام تھا، لہٰذا انہیں اسی علاقے میں آزاد چھوڑ دیا گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ اپنی آبادی میں اضافہ کرتے رہے۔

سن 2006 میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ پابلو ایسکوبار کے چار دریائی گھوڑے اب تعداد میں چار گنا یعنی 16 ہو چکے ہیں اور اسی مقام پر رہ رہے ہیں۔ کولمبیا میں دریائی گھوڑوں کی تعداد اس کے بعد بھی تیزی سے بڑھتی رہی جو اب اندازاً 130 تک پہنچ چکی ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ یہ جانور اب مقامی جنگلی حیات اور دریائے میگڈیلینا کے گرد آباد لوگوں کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ اسی لیے حکومت ان کی تعداد کو قابو میں لانا چاہتی ہے۔

دریائی گھوڑوں کی تعداد کو کنٹرول کرنے کے لیے کولمبیا کی حکومت پہلے بھی کوششیں کرتی رہی ہے لیکن اسے اس میں کچھ خاص کامیابی نہیں ملی۔ ان کی نس بندی کی کوشش بھی کی گئی لیکن دریائی گھوڑے پر یہ عمل انتہائی مہنگا اور مشکل بھی ہے۔

دریائی گھوڑے افریقہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ (فائل فوٹو)
دریائی گھوڑے افریقہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

کولمبیا میں دریائی گھوڑوں کی نس بندی کرنے والی ایجنسی 'کورنیئر' اب تک 11 جانوروں کی آپریشن کے ذریعے نس بندی کر چکی ہے اور 40 دریائی گھوڑوں کو افزائش روکنے کی دوائیں دی گئی ہیں۔ اس عمل پر ایک لاکھ ڈالرز سے زائد خرچ ہوئے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔

سائنس دان بھی ان دریائی گھوڑوں کو پابلو ایسکوبار کا 'ایکولوجیکل ٹائم بم' قرار دے چکے ہیں۔ گزشتہ برس ہونے والی ایک تحقیق میں یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ اس علاقے میں ماحولیات کی بہتری کے لیے دریائی گھوڑوں کو مارنا ہی واحد حل ہے۔

'کورنیئر' کے سربراہ ڈیوڈ ایچاویری کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد میں کمی کے لیے انہیں مارنے کا آپشن اب بھی موجود ہے۔

'اے ایف پی' کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا کہ "یہ کرنا ضروری ہے اور شاید مسئلے کو مزید گھمبیر ہونے سے روکنے کا یہی واحد راستہ ہے۔"

دریائی گھوڑوں کی تعداد مزید بڑھنے کا خدشہ

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگر ان دریائی گھوڑوں کو ایسے ہی چھوڑ دیا گیا تو ان کی آبادی آئندہ 10 برسوں میں چار گنا بڑھ سکتی ہے۔ لیکن کچھ حلقے اس جانور کی تعداد کو کم کرنے کے لیے اسے مارنے کے مخالف ہیں۔

البتہ کولمبیا کی حکومت نے اب اسے باقاعدہ طور پر ناگوار یا قابض جانور قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پاس ان کی تعداد کو قابو میں لانے کا منصوبہ موجود ہے۔ لیکن وہ ،منصوبہ ہے کیا؟ اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

کولمبیا کے سابق وزیرِ ماحولیات مینوئیل روڈریگیز نے حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دریائی گھوڑوں کی تعداد میں کمی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے جس کے لیے اس جانور کے شکار کا آپشن بھی استعمال کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ "ظاہر سی بات ہے کہ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اس عمل کی مخالفت کریں گے، لیکن کیا اس کے علاوہ کوئی اور حل بھی ہے؟"

(اس خبر میں شامل کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)

XS
SM
MD
LG