رسائی کے لنکس

جنگ کے بعد غزہ پر حکومت: غیریقینی صورتِ حال کی وجہ کیا ہے؟


امریکہ نے تجویز پیش کی ہے کہ مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی اتھارٹی کو بالآخر غزہ پر حکومت کرنی چاہیے ۔
امریکہ نے تجویز پیش کی ہے کہ مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی اتھارٹی کو بالآخر غزہ پر حکومت کرنی چاہیے ۔

اسرائیل کے حماس کا تختہ الٹنے کی صورت میں غزہ پر کون حکومت کرے گا؟ یہ مسئلہ دنیا کے سفارت کاروں کے سامنے سب سے زیادہ چیلنجنگ سوالوں میں سے ایک ہے کیوں کہ اس وقت اسرائیل، امریکہ اور خطے کے عرب رہنما اس مسئلے کے بظاہر متضاد حل پیش کر تے نظر آ رہے ہیں۔

امریکہ نے تجویز پیش کی ہے کہ مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی اتھارٹی کو بالآخر غزہ پر حکومت کرنی چاہیے ۔ امریکہ نے ساتھ ہی یہ بھی کہاہے کہ ایک بین الاقوامی اتحاد جس میں شاید عرب ریاستیں بھی شامل ہوں، وہ عبوری دور میں غزہ کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔

دوسری جانب عرب رہنماؤں نے غزہ میں حکومتی عمل داری کے سوال کو حل کیے بغیر لڑائی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور انہوں نے علاقے میں کسی بھی حفاظتی کردار کے خیال کو مسترد کر دیا ہے۔

جب کہ اسرائیل نے غزہ پر 2005 سے پہلے کی طرح قبضہ کرنے سے گریزاں رہتے ہوئے تجویز پیش کی ہے کہ وہ وہاں غیر معینہ مدت تک اپنا حفاظتی کردار برقرار رکھے گا۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے 18 نومبر کو اخبار "دی واشنگٹن پوسٹ" میں لکھے اپنے ایک مضمون میں غزہ اور اسرائیل-فلسطینی تعلقات کے مستقبل پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتےہوئے دلیل دی تھی کہ فلسطینی عوام "اپنی ریاست اور حماس سے آزاد مستقبل کے مستحق ہیں۔"

بائیڈن نے لکھا، "غزہ اور مغربی کنارے کو مضبوط فلسطینی اتھارٹی کے تحت ایک ہی گورننس ڈھانچے کے تحت دوبارہ متحد ہو جانا چاہیے جب کہ ہم سب دو ریاستی حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔"

امریکی صدر نے اپنے مضمون میں مزید لکھا کہ عالمی برادری کو اس بحران کے فوری بعد غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے وسائل کا وعدہ کرنا چاہیے، جس میں عبوری حفاظتی اقدامات بھی شامل ہو، اور غزہ کی طویل مدتی ضروریات کو پائیدار طریقے سے پورا کرنے کے لیے تعمیرِ نو کا طریقہ کار قائم کرنا چاہیے۔

دوسری جانب عرب اور مسلم رہنماؤں کا ایک وزارتی وفد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی پانچ مستقل ریاستوں کا دورہ کر رہا ہے۔ وفد نےغزہ کے باشندوں کو فوری طور پر لڑائی کے خاتمے اور انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔لیکن علاقے میں طویل المیعاد حکومتی عمل داری کے بارے میں مسلم رہنماؤں نے کچھ نہیں کہا۔

سعودی عرب، ترکی، مصر، انڈونیشیا، اردن، نائجیریا، فلسطینی اتھارٹی، قطر اور اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل پر مشتمل وفد نے صدر بائیڈن کی فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پراتفاق کیا ہے۔

تاہم غزہ کے لیے ایک عبوری سیکیورٹی فورس میں شرکت کے معاملے کو وفد میں شامل کچھ ممالک نے صاف طور پر مسترد کر دیا ہے ۔

اس تناظر میں اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے مناما ڈائیلاگ کے نام سے 18 نومبر کو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے زیر اہتمام ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس میں کہا، " اس مسئلے پر تمام بھائیوں سے بات کرنے کے بعد میں کہہ رہا ہوں کہ غزہ میں کوئی عرب فوجی نہیں جائے گا۔"

انہوں نے کہا "ہم دشمن کے طور پر نہیں دکھنا چاہتے۔"

صفادی نے سوالیہ انداز میں کہا، "کوئی غزہ کے مستقبل کے بارے میں کیسے بات کر سکتا ہے جب کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ جارحیت ختم ہونے کے بعد غزہ کس قسم کا رہ جائے گا؟"

دوسری طرف اسرائیل نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے غزہ میں حماس کی حکمرانی کو ختم کرنے کے لیے اپنی فوجی مہم شروع کی تھی اس کے لیے کوئی واضح منصوبہ نہیں کہ حماس کی جگہ کون لے گا۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اس ماہ کے اوائل میں 'اے بی سی' نیوز کو بتایا تھا کہ ان کے خیال میں اسرائیل غزہ کی جنگ کے بعد "غیر معینہ مدت تک" کے لیے "مجموعی سلامتی کی ذمہ داری" سنبھال لے گا۔

لندن میں قائم تھنک ٹینک چتھم ہاؤس کے ایک ایسوسی ایٹ فیلو الہام فخرو کہتی ہیں کہ عرب اور مسلم رہنما اسرائیل میں نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحاد کو محتاط انداز میں دیکھتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اسرائیل پر جنگ کے خاتمے اور دو ریاستی حل پر سنجیدہ مذاکرات کے لیے خاطر خواہ دباؤ ڈالنے کے معاملے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ نتیجتاً مسلم اور عرب ممالک اپنے تحفظات سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے متبادل سفارتی راستے اپنا رہے ہیں جس میں چین سے بات چیت بھی شامل ہے۔

الہام فخرو کے مطابق مسلم اور عرب ملکوں کو امید ہے کہ بین الاقوامی دباؤ امریکہ کو اس تناظر میں متاثر کر سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں، اسرائیل کو اپنے موجودہ طرزِ عمل پر نظر ثانی کرنے کے لیے اثر انداز ہو سکتا ہے۔

فخرو نے مزید کہا کہ اگرچہ غزہ میں انسانی بحران کا حل عرب رہنماؤں کی ایک بڑی ذمہ داری ہے، لیکن یہ ان کی واحد تشویش نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان ملکوں کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ تنازع وسیع تر خطے میں پھیل جائے گا، جس سے بڑے پیمانے پر عدم استحکام پیدا ہو گا۔

اس سلسلے میں امریکہ کی اوکلاہوما یونیورسٹی کے "سینٹر فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز " کے ڈائریکٹر جوشوا لینڈس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیادہ تر عرب حکومتیں مغربی کنارے میں فلسطینی قیادت کو غیر فعال تصور کرتی ہیں۔

ان کے مطابق اس وجہ سے غزہ کا جنگ کے بعد کنٹرول سنبھالنے میں براہِ راست کردار ادا کرنے سے عرب ملکوں کی ہچکچاہٹ بڑھ جاتی ہے۔

لینڈیس کے مطابق فلسطینی اتھارٹی مطالبہ کر رہی ہے کہ حماس کے وہ رہنما جو جنگ کے بعد زندہ رہیں گے وہ غزہ پر مستقبل کے کسی بھی مذاکرات کا حصہ بنیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ عرب حکومتیں فلسطینی اتھارٹی کے مطالبات کی حمایت کریں گی۔

جوشوا لینڈس کے مطابق عرب حکومتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ دو ریاستی حل کو نافذ کیا جائے جو اسرائیل کی 1948 کی سرحدوں کو تسلیم کرے۔ ان عرب ملکوں کا اصرار ہے کہ فلسطینیوں کو خودمختاری حاصل ہونی چاہیے۔

"یہ وہ چیز ہے جس سے موجودہ اسرائیلی حکومت نے انکار کر دیا ہے، جس سے تعطل پیدا ہوتا ہے۔"

فورم

XS
SM
MD
LG