رسائی کے لنکس

میزائل کی حادثاتی لانچنگ: کیا پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود پروٹوکولز پر عمل ممکن ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی طرف سے مبینہ طور پر غلطی سے فائر ہونے والے میزائل کے پاکستان میں گرنے پر مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں پروٹوکول ناکافی ہیں۔ دونوں ممالک میں فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے ری ایکشن ٹائم بھی بہت کم ہے۔ کوئی بھی غلطی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔

نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بیلسٹک میزائل کے تجربے سے پہلے ایک دوسرے کو آگاہ کرنے کا معاہدہ موجود ہے۔

معاہدے کے مطابق دونوں کسی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے سے کم از کم 24 گھنٹے قبل ایک دوسرے کو آگاہ کرنے کے پابند ہیں ۔

راکٹ یا عام میزائل کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز یا ڈی جی ایم اوز اور سیکریٹری خارجہ کی سطح پر ہاٹ لائن موجود ہے جس سے فوری طور پر ایک دوسرے کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

گزشہ جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار نے بتایا تھا کہ بھارت کی جانب سے ایک میزائل نما چیز کو پاکستانی علاقے میں داغا گیا تھا۔

بعد ازاں بھارت کی وزارتِ دفاع نے تصدیق کی کہ نو مارچ کو پاکستان کے علاقے میاں چنوں میں گرنے والا میزائل اسی کا تھا لیکن یہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے غلطی سے فائر ہو گیا تھا۔

’اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان معاہدہ موجود ہے‘

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبد الباسط کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر ’ہیگ کوڈ آف کنڈکٹ‘ میزائل تجربات کے حوالے سے ایک بین الاقوامی ضابطۂ اخلاق ہے۔اسی طرح اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان بیلسٹک میزائل کے تجربات کے حوالے سے بھی معاہدہ موجود ہے۔

انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ یہ کوئی تکنیکی غلطی ہو سکتی ہے یا کسی انفرادی منحرف شخص کا فعل؟

اب تک کی معلومات کے مطابق بھارت نے پاکستان کو اپنی تحقیقات کی کوئی تفصیل نہیں دی ہے۔ سابق ہائی کمشنر نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ بھارت نے جان بوجھ کر میزائل فائر کیا ہو لیکن یہ ایک بہت خطرناک عمل تھا کیوں کہ اس سے دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ چھڑنے کا خدشہ تھا۔ اگر پاکستان میزائل کو اپنی حدود میں آتا دیکھ کر جوابی کارروائی کرتا تو اس کے خطرناک نتائج ہو سکتے تھے۔

’بھارت کی جانب سے اس غلطی کو پہلے چھپایا گیا‘

پاکستان کی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ یہ عام حالات تھے، اگر حالات خراب ہوتے اور پاکستان کی فضا کا دفاعی نظام خود کار ہوتا تو اس میزائل کے آنے کی صورت میں پاکستان کی طرف سے بھی میزائل حملہ ہو سکتا تھا جو خطے کے لیے خطرناک ثابت ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں پاکستان نے اعلان کیا اور بھارت نے ایک دن کے بعد تک آگاہ ہی نہیں کیا کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے۔

ان کے مطابق بھارت کی جانب سے اس غلطی کو پہلے چھپایا گیا اور بعد میں پاکستان کے بتانے پر بات کی گئی۔ لٰہذا عین ممکن ہے کہ یہ اقدام جان بوجھ کر کیا گیا ہو۔

سابق لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب نے کہا کہ فضا میں موجود میزائل کے بارے میں کسی کو نہیں پتا ہوتا کہ اس میں بارودموجود ہے یا نہیں۔ اسے تباہ کرنے کے لیے وہی طریقہ استعمال کیا جائے گا جو میزائل کو فضا میں تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بھارت کے میزائل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ جہاں سے گزرا وہاں کمرشل جہاز بھی فضا میں موجود تھے اور ایوی ایشن کے لیے بھی شدید خطرات تھے۔

’راکٹ لانچنگ کو مانیٹر کرنا بہت مشکل کام ہے‘

اس سوال پر کہ کیا ایسے کسی حادثے کی صورت میں دوسرے ملک کو آگاہ کرنا ممکن ہے؟ فزکس کے استاد ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ راکٹ لانچنگ کو مانیٹر کرنا بہت مشکل کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ خلا میں موجود سیٹلائٹ کے ذریعے کوئی ملک دیکھ سکتا ہے کہ کوئی راکٹ یا میزائل اس کی حدود کی طرف آ رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح جس ملک نے یہ راکٹ لانچ کیا ہے یا یہ راکٹ اپنے مقررہ راستے سے ہٹ گیا ہے تو اس ملک کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی یا جس سمت میں میزائل جا رہا ہو ان ممالک کو آگاہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ میزائل لانچ کے بعد اس کے گرنے کا وقت بہت مختصر ہوتا ہے۔ اس میں محض تین سے چار منٹ لگتے ہیں۔ اس لیے جس ملک کی طرف سے میزائل لانچ کیا جاتا ہے اس کے لیے اتنے کم وقت میں مشکل ہوتا ہے کہ وہ دوسرے ملک کو آگاہ کرے۔

’پروٹوکول بنانا آسان نہیں ہے‘

میزائل تجربات کے ضابطۂ اخلاق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز ہود بھائئ نے کہا کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ اور روس کے درمیان اس معاملے پر مذاکرات ہوئے تھے اور کچھ قواعد طے کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور روس کے درمیان میزائل یا راکٹ پہنچنے میں 15 سے 20 منٹ کا وقت لگ سکتا تھا، جب کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ وقت محض دو سے تین منٹ ہے۔اگر سرحد کے ایک طرف سے میزائل چھوڑا جائے تو پلک جھپکتے میں سرحد پار پہنچ جائے گا۔ اس لیے ایسا کوئی بھی پروٹوکول بنانا آسان نہیں ہے۔

بھارت کے حالیہ میزائل لانچ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس دفعہ بھارت کی غلطی تھی۔ اس پر کوئی وار ہیڈ نہیں تھا اور فضا میں جانے کے بعد اس نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا اور پاکستان آ گیا۔ تکنیکی خرابیاں اتنی آسانی سے درست نہیں کی جاسکتیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے دہائیوں کے بعد ان مسائل کے حل تلاش کیے البتہ ابھی بھی حادثات کا خطرہ موجود رہتا ہے۔

’ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے‘

کسی بھی حادثے سے بچنے کی تجویز دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میزائل میں سیلف ڈسٹرکشن سسٹم یعنی خود کار طریقے سے تباہ ہونے کا نظام بھی ہونا ضروری ہے جس سے اگر کسی میزائل میں کوئی خرابی ہو تو اس کو فضا میں ہی خود تباہ کیا جاسکے۔

بھارت سے پاکستان آنے والے میزائل پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہاٹ لائن پر ڈی جی ایم اوز کا رابطہ رہتا ہے البتہ راکٹ لانچنگ میں اس ہاٹ لائن کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ جب یہ راکٹ فضا میں گیا تو اس وقت تک دو منٹ کا وقت گزر چکا تھا اور اس کے بعد اس نے اپنا راستہ تبدیل کیا تو اس کے ایک منٹ کے اندر یہ اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ سکتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدہ ہے کیا؟

تجزیہ کار اور استاد اے ایچ نئیر کہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی کی حکومتوں کے درمیان 1989 میں معاہدہ ہوا تھا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو بیلسٹک میزائل کے تجربات سے آگاہ کرنے کے پابند ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس زمانے میں دونوں ممالک نے بہت سے تجربے کیے تھے۔ اسی وجہ سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک پابند ہوں گے کہ ایک دوسرے کو آگاہ کریں کیونکہ اگر میزائل غلطی سے دوسرے ملک کی طرف چلا گیا تو نقصان زیادہ ہو سکتا ہے۔

اے ایچ نئیر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کا ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق معاہدہ بھی موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی تکنیکی غلطی، یا کسی انفرادی منحرف شخص کے فعل کی وجہ سے ہتھیار چل جائیں تو دوسرے ملک کو فوری طور پر آگاہ کیا جائے گا۔

’بھارت کو پاکستان کو آگاہ کر کے اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے تھی‘

حالیہ واقعے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بھارت کو فوری طور پر ہاٹ لائن پر پاکستان کو آگاہ کر کے اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے تھی۔

انہوں نے تجویز کیا کہ اس واقعے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا اور مستقبل میں ان خطرات سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔

اے ایچ نیئر نے کہا کہ اس معاملے میں تو بھارت کا کہنا ہے کہ انہیں خود نہیں پتا چلا کہ وہ گرا کہاں ہے۔ یہ انتہائی خطرناک ہوسکتا تھا۔ پاکستان میں اگر جانی نقصان ہوتا تو اسلام آباد کی طرف سے جواب دینا بھی ضروری تھا۔

بھارت کا میزائل نظام "انتہائی محفوظ" ہے

بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کے نظام سے متعلق ضابطہ کار کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس میں کسی کمی کو دور کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے منگل کو قانون سازوں کو بتایا کہ حکومت نے اس واقعے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے اور اس کے لیے اعلی سطحی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔انہوں نے پارلیمان کو یقین دلایا کہ بھارت کا میزائل نظام "انتہائی محفوظ اور قابل بھروسہ" ہے۔

XS
SM
MD
LG