رسائی کے لنکس

کرونا وائرس کی وبا اور بے یقینی کی فضا


کرونا وائرس کی وبا نے دنیا کو اس مرحلے پر لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ کب کیا ہونا ہے، کس سمت جانا ہے، منزل کونسی ہے اور قیام کہاں کرنا ہے۔

ایک جانب بندش جاری رہنے کی صورت میں معاشی بدحالی، بھوک اور بیروزگاری کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ پھر اتنے طویل عرصے تک معاشرتی طور پر کٹ کر رہنا انسان کی بنیادی فطرت کے خلاف ہے جس سے وہ اکتا جاتا ہے اور آخر کار سرکشی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب اس خطرے کے بادل سر پر منڈلا رہے ہیں کہ بندشیں ختم کرنے کی صورت میں یہ وبا ایک بار پھر زور پکڑ سکتی ہے۔ اور ویسے بھی طبی ماہرین اور سائنسدان اس وبا کی ایک اور لہر کی پیشگوئی ایسے میں کر رہے ہیں، جبکہ اس کی کوئی موثر دوا یا ویکسین کی ایجاد اگر برسوں نہیں تو خود ماہرین کے بقول مہینوں دور ضرور ہے۔

اور بلاشبہ امریکہ ہو یا پاکستان، یوروپی ممالک ہوں یا بھارت یا دنیا کا کوئی بھی ملک اس کے لئے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے اور پھر اس فیصلے کے مثبت یا منفی نتائج کا سامنا کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہو گا۔

دوسرے کئی ملکوں کی طرح امریکہ میں بھی کئی ریاستوں نے محدود پیمانے پر اور حفاظتی شرائط کے ساتھ ہی سہی معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن طبی ماہرین کی اکثریت اسے کوئی بہت درست فیصلہ تصور نہیں کرتی۔

ڈاکٹر ساجد چودھری یہاں امریکہ میں متعدی امراض کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، معاشی فیصلہ ہے اور ہوسکتا کہ ایک معاشرتی فیصلہ بھی ہو۔ لیکن، طبی نقطہ نظر سے یہ درست فیصلہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ مرض کے بڑھنے کے رجحان کے سبب لوگوں کی اکثریت خوفزدہ ہے کھلنے کے باوجود سوائے ان لوگوں کے جنہیں روزگار کی مجبوریاں ہوں اور کتنے لوگ باہر نکلنا چاہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ متعدی امراض کا اصول یہ ہے کہ وہ سورس کے ذریعے پھیلتا ہے۔ اگر سورس اور عام آدمی کے درمیان فاصلہ آجائے تو پھیلاؤ رک جاتا ہے جیسا کہ چین کا ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ اور امریکہ میں جب اس کا آغاز ہوا تھا اسی وقت مکمل لاک ڈاؤن کردیا جاتا تو یہ کبھی اتنا نہ پھیلتا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں آئندہ دو سے چار ہفتے انتہائی اہم ہونگے۔

ممتاز تجزیہ کار پولی ٹیکٹ کے چیف انالسٹ عارف انصار نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ہی صورتوں میں فیصلہ کرنے والوں کی مجبوریاں ہیں کہ نہ تو غیر معینہ مدت تک معاشی سرگرمیوں کو بند رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پورے طور سے کھولنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔

پھر کچھ نہیں پتا کہ کب اور کیسے یہ وبا ختم ہو گی۔ پھر لوگ بھی گھروں میں بند رہ کر عاجز آگئے ہیں۔ بعض جگہوں پر یہ خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہےکہ کہیں لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لینا شروع نہ کردیں۔ اس لئے اب دنیا میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے۔ خاص طور پر ایسی صورت میں کہ ماہرین اس مرض کی ایک اور لہر کو ناگزیر بتاتے ہیں فی الحال اس وبا کے ساتھ رہ کر ہی آگے بڑھنا ہے اور وہ اسی انداز میں آگے بڑھنے کی تیاری کر رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG