رسائی کے لنکس

کرونا بحران کے دوران ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج میں کوئی کمی نہیں آئی


فائل
فائل

ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی توجہ کرونا وائرس بحران اور امریکہ میں نسلی مسائل پر جاری احتجاجی مظاہروں پر مرکوز ہے، ایک نئی رپورٹ نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کی یاد دہانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ مئی تاریخ کا گرم ترین مہینہ تھا۔

کوپرنیکس ماحولیاتی تبدیلی سروس سے وابستہ سائنسدانوں کے مطابق، رواں برس تاریخ کے 10 گرم ترین سالوں میں میں شمار ہوگا۔

یہی نہیں بلکہ فائنانس واچ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، کرونا وائرس کے مقابلے میں ماحولیاتی تبدیلی مالی استحکام کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔

سائنسی حقائق پر مبنی یہ دو رپورٹیں ان مفروضوں کی نفی کرتی ہیں جن کے مطابق خیال کیا جا رہا تھا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر پر معاشی اور ترقیاتی کارروائیوں میں کئی ماہ طویل غیر معمولی جمود کی صورتحال سے شاید ماحولیاتی تبدیلی میں کمی واقع ہوگی۔

کوپرنیکس ماحولیاتی تبدیلی سروس سے منسلک سائنسدان فری جاویم بورگ کہتی ہیں کہ مئی کا گرم ترین مہینہ ہونا ایک خطرناک بات ہے، اور یہ بات کہ گزشتہ بارہ ماہ تاریخ کے گرم ترین 12 مہینوں میں شامل ہیں اس سے بھی زیادہ خبردار کرنے والی بات ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ امر کہ 2019 تاریخ کا دوسرا گرم ترین سال تھا یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ عالمی سطح پر درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا میں برف تیزی سے پگھل رہی ہے گرمی کی لہروں میں اضافہ ہو رہا ہے اور جنگلی آگ بھڑکنے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، ان رپورٹوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے کے رجحان کو روکنے کے لیے فضا میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے علاوہ صنعتی ترقی اور انسانی طرز حیات میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

عالمی ادارہ موسمیات کے سیکرٹری جنرل پیٹری تالس کہتے ہیں کہ کووڈ نائنٹین کی وجہ سے اقتصادی اور صنعتی کارروائیوں میں جو کمی آئی ہے وہ کسی طور بھی ماحولیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا نعم البدل نہیں ہے۔

اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین جیسی گیسیں فضا میں صدیوں تک معلق رہتی ہیں۔ لہذا، اقتصادی کارروائیوں میں کمی کوئی طویل المیعاد اثرات نہیں چھوڑے گی۔

اقتصادی اور صنعتی کارروائیوں میں کمی کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کتنی عارضی ہے اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی پابندیاں ختم ہونے اور کاروباری زندگی کے واپس لوٹنے پر ملک میں ماحولیاتی آلودگی اسی سطح پر واپس آگئی جو اس وبائی مرض کے پھیلنے سے پہلے تھی۔

عالمی اداروں کے مطابق، فضائی آلودگی ہر سال 80 لاکھ اموات کا باعث بنتی ہے۔

اگر ماحولیاتی تبدیلی کے نمٹنے کی بات کی جائے تو 2015 میں ہونے والا پیرس معاہدے پر عمل درآمد بھی سست روی کا شکار ہے۔ اس معاہدے کے مطابق، بین الاقوامی برادری کو مل کر ایسے اقدامات کرنے ہیں جن کے تحت بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے پہلے کے حالات سے 1.5 ڈگری سیلسیئس یا 2.7 ڈگری فارن ہائٹ کی سطح پر لانا ہے۔

جنوبی ایشیا ایسے خطوں میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی قدرتی آفات کی وجہ بنتی ہے اور اس سے جنم لینے والی بیماریوں سے ہر سال لاکھوں جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔

کرونا وائرس کے پھیلاو کے بعد جب زندگی کا پہیہ رک گیا تو بھارت اور پاکستان میں لوگوں کو ایک خوشگوار حیرت ایسے ہوئی کہ وہ دور ہمالہ پہاڑی سلسلے کے دلفریب قدرتی مناظر دیکھ سکتے تھے جو پہلے آلودگی کی وجہ سے نظروں سے اوجھل رہتے تھے۔

لیکن، ماہرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جنوبی ایشیا ایک گنجان آباد علاقہ ہے جہاں ہمسایہ ممالک زمینی سرحدوں کے علاوہ موسموں کے نظام سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔

اس خطے میں دنیا کے آبادی کے لحاظ سے دو سب سے بڑے ممالک یعنی چین اور بھارت اور دنیا کی پانچویں بڑی آبادی کا ملک پاکستان واقع ہیں۔

خاص طور پر سال کے مختلف حصوں میں موسمی نظاموں سے جڑے بھارت اور پاکستان فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل سے الگ الگ کوششوں سے نہیں نمٹ سکتے۔

حال ہی میں پاکستانی ماحولیاتی ماہر اور وکیل رافع عالم نے دی تھرڈ پول ویب سائٹ کے مطابق کہا کہ فضائی آلودگی کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جاسکتا جب تک بھارت اور پاکستان ایک دوسرے سے تعاون نہ کریں۔ اس سلسلے میں سیاست دان اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہے اور اگر آپ ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہیں گے تو آپ باہمی طور پر تعاون نہیں کر سکتے۔۔

جہاں تک مالیاتی اداروں اور ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کی کوششوں کا تعلق ہے تو فائنانس واچ رپورٹ کے تحریر کنندہ، تھیری فلپوناٹ کہتے ہیں کہ تیل اور گیس کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتے وقت بینکوں کو اس سرمایہ کاری کو ایسے ہی دیکھنا چاہیے جیسے وہ کسی ایسے شعبے یا جگہ پر کا م کر رہے ہیں جہاں نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔

XS
SM
MD
LG