رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: دارالحکومت منتقل کرنے کی روایت 'دربار موؤ' کیا اب ختم ہو رہی ہے؟


سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی صدر مقام ہے۔ یہ روایت یا مشق لگ بھگ 'ڈیڑھ سو سال' پرانی ہے۔
سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی صدر مقام ہے۔ یہ روایت یا مشق لگ بھگ 'ڈیڑھ سو سال' پرانی ہے۔

جموں و کشمیر بھارت کے زیرِ انتظام وہ واحد علاقہ ہے جس کا دارالحکومت موسم بدلتے کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی صدر مقام ہے۔ یہ روایت یا مشق لگ بھگ ڈیڑھ سو برس پرانی ہے جسے 'دربار موؤ' کہا جاتا ہے۔

البتہ اب اس 149 برس پرانے 'دربار موؤ' کا یہ انوکھا عمل تقریباً ختم ہونا نظر آرہا ہے۔ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ کرونا وبا اور اخراجات سے بچنے کے لیے دارالحکومت کی ششماہی منتقلی کے عمل میں بتدیج کمی لائی جا رہی ہے۔

منوج سنہا انتظامیہ نے اس برس اپریل میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ اب سول سیکریٹریٹ جموں اور سری نگر میں سال بھر کھلے رہیں گے۔ ایک سرکاری حکم نامے میں جس پر کمشنر سیکریٹری ایم کے دویویدی نے دستخط کیے تھے کہا گیا تھا کہ "سربراہان محکمۂ جات کے دفاتر جو مکمل طور پر سرمائی دارالحکومت اور گرمائی دارالحکومت کے درمیان منتقل ہوتے ہیں اب دونوں جگہوں، جموں اور سری نگر میں کام کریں گے۔

حکام کا مزید کہنا تھا کہ اُن سربراہانِ محکمۂ جات کے دفاتر جو دربار موؤ کے تحت تو آتے ہیں لیکن ان کے کیمپ آفسز جموں یا سری نگر میں کھلے رہتے ہیں وہ بھی اب دونوں جگہوں پر کام کرتے رہیں گے۔

دربار منتقل کرنے کی روایت ڈوگرہ شاہی خاندان نے شروع کی تھی جس کے بانی مہاراجہ گلاب سنگھ نے 16 مارچ 1846 کو انگریزوں کے ساتھ طے پائے متنازع بیعنامہ امرتسر کے تحت جموں کشمیر ریاست کی بنیاد ڈالی تھی۔

ان کا تعلق چوں کہ جموں سے تھا اس لیے وہ اپنا دربار گرمی کے موسم میں سری نگر میں سجاتے تھے اور پھر سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی جموں منتقل ہوجاتے تھے۔

البتہ، جموں کو باضابطہ طور پر ریاست جموں و کشمیر کی سرمائی اور سری نگر کو گرمائی دارالحکومت اُن کے جانشین مہاراجہ رنبیر سنگھ نے 1872 میں قرار دیا تھا۔ ان دو دارالحکومتوں کے درمیان ہر چھ ماہ بعد ہونے والی سرکاری دفاتر کی منتقلی کو وقت کے حکمران نے 'دربار موؤ' یا دربار کی منتقلی کا نام دیا تھا اور یہ مشق آج تک اسی نام سے جانی جاتی ہے۔

سن 1947 میں عوامی حکومت کے قیام پر 'دربار موؤ' روایت برقرار رکھی گئی

سن 1947 میں مطلق العنان ڈوگرہ راج کے خاتمے کے بعد ریاست میں قائم ہونے والی عوامی حکومت نے 'دربار موؤ' کی اس روایت کو برقرار رکھا۔ البتہ 1987 میں اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اس مشق کو یہ کہہ کر ترک کرنے کا اعلان کردیا تھا کہ یہ وقت اور وسائل کا ضیاع ہے اور اسے ترک کرنے سے خزانہ پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے۔

لیکن جموں کی سیاسی اور سماجی جماعتوں، تاجر برادری، وکلا اور سول سوسائٹی گروپس نے یکجا ہو کر تحریک چلائی جس کے بعد وزیرِ اعلیٰ کو مجبوراً اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔

'دربار موؤ' کیسے ہوتا تھا؟

اکتوبر کے آخری ہفتے میں سری نگر میں سول سیکریٹریٹ اور دربار موؤ سے جڑے دیگر سرکاری دفاتر کے بند ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی لگ بھگ 10 ہزار سرکاری ملازم اپنے بیوی بچوں سمیت جموں منتقل ہو جاتے تھے اور پھر اگلے سال مئی میں واپس سری نگر آکر اپنا کام کاج بحال کرتے تھے۔ اس منتقلی کے لیے انہیں 10، 10 روز کا عبوری وقفہ ملتا تھا اور سی دوران تمام دفاتر کا ریکارڈ وغیرہ ٹرکوں میں لاد کر سری نگر سے جموں اور پھر جموں سے واپس سری نگر لایا جاتا تھا۔

حکومت، اس کے انتظامی دفاتر اور ان میں کام کرنے والے ملازمین کی گرمائی اور سرمائی صدر مقامات کے درمیان اس منتقلی پر کئی کروڑ روپے خرچ ہوتے تھے۔

سری نگر اور جموں میں سول سیکریٹریٹ کے چھ، چھ ماہ کے وقفے کے بعد کھلنے کے موقع پر ان کے احاطے میں باضابطہ رسمی پریڈ منعقد کی جاتی تھی جس میں پولیس کے مرد اور خواتین دستے شرکت کرتے تھے اور وزیرِ اعلیٰ کو سلامی پیش کرتے تھے۔

اس موقع پر جشن کا ماحول ہوتا تھا، گارڈز آف آنر پر سلامی لینے کے بعد وزیرِاعلیٰ سیکریٹریٹ میں مختلف دفاتر کا معائنہ کرتے تھے۔ دربار موؤ کے پہلے دن گورنر ہاؤس اور پولیس ہیڈکوارٹرز پر بھی اسی طرح کی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا۔

سری نگر اور جموں کے درمیان تقریباً تین سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ البتہ حال ہی میں شاہراہ میں لائی گئی بہتری کے بعد سفر گھٹ کر 272 کلو میٹر رہ گیا ہے۔

ای گورننس کا فروغ یا سیاسی فیصلہ؟

منوج سنہا نے عوامی رابطے کے ایک پروگرام کے دوراں کہا تھا "جموں و کشمیر انتظامیہ کا کام اب مکمل طور پر ای۔آفس پر منتقل ہو چکا ہے جس سے صدیوں پرانی دربار موؤ مشق کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

اُن کے بقول اب جموں اور سری نگر کے سیکریٹریٹ سال کے 12 مہینے معمول کے مطابق کام کرتے رہیں گے۔ اس سے حکومت سالانہ دو سو کروڑ روپے بچا لے گی اور یہ خطیر رقم عوام کے محروم طبقوں کی بہبود پر خرچ کی جائے گی۔ "

سنہا کے اس بیان کو 'دربار موؤ' مشق کو ختم کرنے کا واضح اور غیر مبہم اعلان سمجھا گیا۔ تاہم دویویدی نے بتایا کہ لیفٹننٹ گورنز کے اس بیان کی اصل روح کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ان کے بقول لیفٹننٹ گورنر کے کہنے کا مطلب تھا کہ ای-آفس یا ای-گورننس کی بدولت اخراجات کو غیر معمولی حد تک محدود کردیا گیا ہے جو ششماہی دربار موؤ مشق پر ضائع ہوجاتے تھے۔

'جموں اور کشمیر میں دوریاں نقصان کا باعث بنیں گی'

'دربار موؤ' کی اس ڈیڑھ صدی پُرانی روایت ختم کرنے کی کوشش پر جموں کشم یر کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے تنقید کی ہے جب کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مقامی قیادت نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب جموں کی تاجر برادری کا کہنا ہے کہ اس عمل سے اُن کا کاروبار بُری طرح متاثر ہو گا کیوں کہ حکومت کی سری نگر سے جموں منتقلی کے ساتھ ہی وادی کشمیر کے ہزاروں خاندان سخت سردی سے بچنے کے لیے عارضی طور پر جموں منتقل ہو جاتے تھے اور ان کی وہاں تقریباً چھ ماہ تک موجودگی مقامی تجارت کو فروغ دینے کا سبب بن جاتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اس ششماہی نقلِ مکانی میں فرق آ سکتا ہے۔

بعض سیاسی رہنماؤں جن میں سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں کا کہنا ہے کہ 'دربار موؤ' کی یہ روایت ہندو اکثریتی جموں اور مسلم اکثریتی وادئ کشمیر کے درمیان ایک پُل کا کام دیتی تھی۔

اُن کے بقول اس سے جموں و کشمیر کے مختلف خطوں کے الگ الگ زبان بولنے اور لباس پہننے والے لوگ چھ چھ ماہ بعد ایک دوسرے کے ہاں گھل مل جاتے تھے جس سے باہمی محبت کو فروغ ملتا تھا۔

محبوبہ مفتی نے کہا کہ "موجودہ بھارتی حکومت نے جس پر ہندو رجعت پسندوں کا غلبہ ہے، نے پہلے اس تاریخی ریاست کے حصے کیے اور پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات نے نہ صرف ہماری پہچان اور حقوق پر شب خون مارا بلکہ لداخ کو ہم سے الگ کر دیا گیا۔''

خیال رہے کہ بھارتی حکومت پانچ اگست 2019 کے اقدامات کا دفاع کرتی رہی ہے۔ بھارتی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ کشمیری عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اُن کی بہتری کے لیے فیصلے کرتی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG