رسائی کے لنکس

'دیپیکا اب اپنی سیاسی شناخت ظاہر کر دیں'


سمرتی نے کہا کہ دیپیکا ان لوگوں کے ساتھ کھڑی تھیں جو پولیس جوان کے مرنے پر خوش ہوتے ہیں۔
سمرتی نے کہا کہ دیپیکا ان لوگوں کے ساتھ کھڑی تھیں جو پولیس جوان کے مرنے پر خوش ہوتے ہیں۔

بھارت کی صف اول کی اداکارہ دیپیکا پڈوکون کے نئی دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی کے دورے پر اب بھی بھارت میں بحث کا سلسلہ جاری ہے۔

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنما اور یونین وزیر سمرتی ایرانی نے دیپیکا پڈوکون کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اداکارہ اب اپنی سیاسی شناخت ظاہر کر دیں۔

چنائی میں جمعرات کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سمرتی ایرانی نے کہا کہ دیپیکا نے 2011 میں ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت کرتی ہیں۔

سمرتی کے بقول، "دیپیکا پڈوکون کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں مرضی جائیں لیکن وہ ان لوگوں کے ساتھ تھیں جو 'بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے' کے نعرے لگا رہے تھے۔"

سمرتی نے کہا کہ دیپیکا ان لوگوں کے ساتھ کھڑی تھیں جو پولیس جوان کے مرنے پر خوش ہوتے ہیں اور جو نظریں نہ ملانے والی خواتین پر تشدد کرتے ہیں۔ کیا یہ ان کی آزادی ہے؟

خیال رہے کہ دیپیکا نے 2011 میں دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران راہول گاندھی کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انہیں بھارت کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتی ہیں۔

دیپیکا پڈوکون نے منگل کو نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو (جے این یو) یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا اور ان کی مظاہرین کے ساتھ کچھ تصاویر سامنے آئی تھیں۔

تصاویر میں دیپیکا جے این یو کے طلبہ کے ساتھ خاموشی سے کھڑی تھیں جو حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے۔

دیپیکا کی جانب سے مظاہرین کی اس خاموش حمایت پر کئی لوگوں کو حیرانی بھی ہوئی۔ کیوں کہ دیپیکا اس سے قبل ایسی کسی بھی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں رہیں۔

دیپیکا نے جے این یو کا دورہ ایسے موقع پر کیا تھا جب حال ہی میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم نے یونیورسٹی کیمپس پر حملہ کر کے 30 سے زائد طلبہ کو زخمی کر دیا تھا۔

دیپیکا بھی ایک ایسی ہی طالبہ کے ساتھ کھڑی دکھائی دیں جو زخمی حالت میں مظاہرے میں شریک تھی۔

دیپیکا کے یونیورسٹی کے دورے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے مختلف رہنماؤں نے شدید تنقید کی تھی۔ بعض رہنماؤں نے تو عوام سے دیپیکا کی نئی فلم 'چھپاک' کا بائیکاٹ کرنے کی بھی اپیل کی تھی۔

بھارت میں متنازع شہریت بل سمیت اہم قومی معاملات پر گزشتہ سال سے اختلاف رائے ابھر کر سامنے آیا ہے۔

اپوزیشن جماعتیں بالخصوص کانگریس، حکومتی جماعت کی پالیسیوں پر سخت نالاں اور اسے بھارت کی نظریاتی اساس 'سیکولر ازم' کے خلاف قرار دیتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG