رسائی کے لنکس

بھارت: مظاہروں میں انقلاب اور آزادی کے نعرے


حالیہ چند روز کے دوران بھارت کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد شہریت قانون کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔
حالیہ چند روز کے دوران بھارت کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد شہریت قانون کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔

بھارت میں شہریت قانون کے خلاف جاری مظاہروں کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا جس میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتوں کے علاوہ ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے۔

ان مظاہروں میں آزادی، انقلاب اور مر مٹنے کے نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ وہیں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ بھی پیش پیش ہیں اور مزاحمتی نظمیں بھی پڑھی جا رہی ہیں۔

حالیہ چند روز کے دوران بھارت کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد شہریت قانون کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ نیا قانون تعصب پر مبنی اور مسلم اقلیت کے خلاف ہے۔ حکومت کے اس قانون سے بھارت کے سیکیولر تشخص کو دھچکا لگا ہے۔

صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو اکثریت، نچلی ذات سے تعلق رکھنے افراد سمیت پارسی بھی سڑکوں پر نکل رہے ہیں جو نئی قانون سازی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

یاد رہے کہ بھارت کا نیا شہریت قانون کہتا ہے کہ ہمسایہ ملک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے چھ مذاہب کے ماننے والوں کو شہریت دی جائے گی ماسوائے مسلمانوں کے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت کو نئی قانون سازی پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ تاہم وہ اعلان کر چکے ہیں کہ شہریت قانون مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔ اس کے باوجود ملک بھر میں جاری احتجاج تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔

شہریت قانون کے خلاف احتجاج صرف دارالحکومت نئی دہلی تک ہی نہیں بلکہ ریاست مہاراشٹرا، آسام، گجرات، گوا، مغربی بنگال، اتر پردیش، جھارکھنڈ اور بہار میں بھی جاری ہے۔

اس احتجاج کے دوران جہاں مظاہرین حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں وہیں ان میں انقلاب کی گونج بھی سنائی دے رہی ہیں اور مختلف طریقوں سے اپنے جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز وائرل ہیں جس میں شہریت قانون کے خلاف اور انقلاب اور آزادی جیسے نعرے سنے جا سکتے ہیں۔

بھارتی رکن پارلیمنٹ سشی تھرور بھی شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے قانون کے طلبہ کے مظاہرے میں شریک ہوئے جس میں مظاہرین آزادی کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔

واسندھرا جولی نامی ٹوئٹر صارف نے ایک ویڈو شیئر کی تھی جس میں نوجوان طالبات کو نعرے بازی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹوئٹر صارف نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ اب خواتین انقلاب کی قیادت کریں گی۔

بھارتی ریاست کیرالہ کے ساحلی شہر کوزیکوڈ میں بھی احتجاج کے دوران ایک ایسا ہی نعرہ لگایا گیا جس میں حکومت مخالفت سمیت انقلاب کی گونج سنی جا سکتی ہے۔

ایک مظاہرے کے دوران مظاہرین نغمہ پڑتے رہے کہ اے وطن تیرے لیے ہم گرے ہیں اور مریں گے۔ دل دیا ہے جان بھی دیں گے اے وطن تیرے لیے۔

بھارتی شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں سماجی تنظمیں بھی شریک ہیں اور اس سلسلے میں 27 فروری کو ممبئی میں ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا ہے جسے انقلاب کا نام دیا جا رہا ہے۔

بھارت میں ان مظاہروں کے جواب میں حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کے حامی بھی سڑکوں پر آئے اور انہوں نے نریندر مودی کے حق میں پاکستان کے خلاف بھی نعرے بازی کی۔

مظاہرین نعرے بازی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وہ انقلاب لا کر رہیں گے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کے مطابق مظاہروں کے دوران پاکستان کے انقلابی شاعر حبیب جالب اور فیض احمد فیض کے کلام کی بھی دھوم مچی ہوئی ہے۔

مظاہروں میں ایسے بینرز و پوسٹرز بھی نظر آتے ہیں جن پر حبیب جالب کی ایک نظم کا یہ مصرعہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ:

ایسے دستور کو، صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

طلبہ کے کچھ گروہ یہ نظم ساز کے ساتھ گاتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اسی طرح فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے کی بھی خوب دھوم ہے۔ طلبہ اسے بھی سر و ساز کے ساتھ گا رہے ہیں۔ بالخصوص یہ اشعار تو عام سنائی دیتے ہیں کہ:

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہلِ حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

جب تاج اچھالے جائیں گے

جب تخت گرائے جائیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

بھارت کے شاعر راحت اندوری کا ایک شعر بھی بے شمار پوسٹرز پر لکھا دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے لگ بھگ 30، 35 سال قبل ایک غزل کہی تھی جس کا یہ شعر آج کل مظاہرین کی زبان پر ہے:

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

راحت اندوری کا کہنا ہے کہ انہوں نے تین عشرے قبل یہ غزل کہی تھی۔ لیکن جب سے حکومت بدلی ہے، ان کی یہ غزل کافی مقبول ہو گئی ہے۔ اور خاص طور پر مذکورہ شعر یادداشتوں کے پردے سے باہر آگیا ہے۔

XS
SM
MD
LG