رسائی کے لنکس

مطیع اللہ جان کے اغوا کی کہانی کچھ مختلف سی ہے


سینئر صحافی مطیع اللہ جان
سینئر صحافی مطیع اللہ جان

سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا اغوا ہونا اور گھر لوٹ آنا پاکستان میں کوئی انوکھا یا منفرد واقعہ نہیں ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اس ملک میں طاقت وروں پر تنقید کرنے والے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور بلاگرز کے ساتھ اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، اور جب وہ واپس آتے ہیں تو ان کا لب و لہجہ عموماً بدل چکا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اغواکاروں کے بارے میں زبان کھولتے ہیں اور نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا اور کن شرائط پر چھوڑا گیا۔

کچھ واقعات میں زبردستی اٹھائے گئے افراد گھر نہیں پہنچے بلکہ کسی ویرانے سے ان کی نعش ملی۔ مقدمہ درج ہوا، مگر پولیس کو کبھی کوئی سراغ نہیں ملا اور کیس داخل دفتر ہو گئے۔

مطیع اللہ جان کا واقعہ اس لیے مختلف ہے کہ یہ دن دہاڑے ہوا۔ وفاقی حکومت کے دل اسلام آباد میں ہوا اور ایک سکول کے گیٹ کے عین سامنے ہوا۔ جہاں سی سی ٹی وی کیمرہ بھی لگا ہوا تھا، جس پر زبردستی اغوا کا منظر نہ صرف ریکارڈ ہوا بلکہ آناً فاناً سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو گیا۔

اس واقعہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس پر فوری ردعمل بھی آنا شروع ہو گیا اور ایک صحافی کے اغوا پر دنیا بھر سے تشویش اور مذمت کی جانے لگی۔

اس واقعہ کا تیسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اب لوگوں کے دلوں سے نادیدہ قوتوں کا خوف اور دبدبہ گھٹ رہا ہے۔ پہلے لوگ اغوا کاروں کو اشاروں کنائیوں میں کبھی خلائی مخلوق، کبھی کوہ قاف، کبھی محکمہ زراعت اور کبھی کسی اور نام سے موسوم کرتے تھے۔ اس بار سوشل میڈیا پر کئی پوسٹوں میں براہ راست نام لینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ یہ پہلو اغوا کاروں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہو سکتا ہے۔

اس واقعہ کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اغوا کا فوری نوٹس لیا اور انتظامیہ سے جواب طلبی کر لی۔ یہ تمام واقعات اتنی تیزی سے ہوئے کہ غالباً اغوا کاروں کو پچھلے قدموں پر آنا پڑا، اور شاید اپنے ابتدائی سکرپٹ میں تبدیلی کر کے چند ہی گھنٹوں میں مطیع اللہ جان کو رہا کرنا پڑا۔

رہائی کے لیے بھی پرانے گھسے پٹے سکرپٹ پر عمل کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں انہیں ایک ویران مقام پر چھوڑ دیا گیا۔

دن دہاڑے ایک سکول کے سامنے، ایک ایسی سڑک پر جہاں ٹریفک چل رہی تھی اور لوگ آ جا رہے تھے، مطیع اللہ کی کار کے قریب تین گاڑیوں کا رکنا، ان میں سے نصف درجن کے قریب افراد کا باہر نکلنا، جن میں سے کچھ نے پولیس کی یونیفارم پہن رکھی تھی، گرد و پیش کی پروا کیے بغیر ایک سینئر صحافی کو اٹھا کر اپنی گاڑی میں ڈالنا، کچھ لوگوں کے نزدیک، یہ ظاہر کرتا ہے کہ اغوا کاروں کو یا تو خود پر بلا کا اعتماد تھا یا وہ نئے لوگ تھے اور انہیں صورت حال اور محل و قوع کی سنگینی کا احساس نہیں تھا۔

اغوا کے بعد کیا ہوا؟ یہ کہانی مطیع اللہ جان نے اپنے یوٹیوب چینل پر خود سنائی۔ ان کے مطابق اغواکاروں نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی، سر پر کالا کپڑا ڈالا، ہتھکڑی لگائی اور انہیں زد و کوب کرنا شروع کر دیا۔ گاڑی چلتی رہی اور تشدد جاری رہا۔ مطیع اللہ جان مسلسل یہ پوچھتے رہے کہ ان کا قصور کیا ہے؟ انہیں کیوں اٹھایا گیا ہے۔ انہیں ایک ہی جواب ملتا رہا۔ تم خود سمجھ دار ہو۔ ایسا کام کیوں کرتے ہو۔

مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد گاڑی ایک عمارت کے سامنے رکی۔ انہیں ایک کمرے میں فرش پر پھینک دیا گیا۔ اس موقع پر وہ اپنی ایک آنکھ سے پٹی قدرے ہٹانے میں کامیاب ہوئے تو سامنے کا منظر ایک پولیس اسٹیشن کا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ کوئی اور جگہ ہو اور پولیس اسٹیشن کا سوانگ بھرا گیا ہو۔

کچھ دیر کے بعد انہیں وہاں سے نکال کر دوبارہ گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس بار ان کے منہ پر سختی سے ٹیپ بھی لگا دی گئی۔ گاڑی اور تشدد دونوں چلتے رہے۔ پھر انہیں ایک ویرانے میں پھنک دیا گیا جہاں کسی نامعلوم شخص نے نام پوچھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ تو کوئی اور ہے اور اغوا کار انہیں چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔

مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی طرح سے اپنے گھروالوں سے رابطہ کیا اور ان کا بھائی آ کر لے گیا۔ تاہم، بازیابی سے متعلق پولیس کی کہانی قدرے مختلف ہے۔

مطیع اللہ جان کی ویڈیو کہانی میں بھی کئی لوگوں کے لیے بعض مقامات پر شک کی گنجائش موجود ہو سکتی ہے۔ لیکن اغوا اور رہائی کے اس واقعہ نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اول یہ کہ انہیں ایک ایسے موقع پر کیوں اٹھایا گیا جب اگلے روز انہیں اپنے خلاف توہین عدالت کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا۔ آخر ایسی کیا ایمرجینسی تھی کہ انہیں روشن دن میں ایک سکول کے گیٹ کے سامنے سے اٹھانا ضروری تھا۔ اگر انہیں طاقت ور اداروں پر نکتہ چینی کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے تو انہیں سبق سکھانے کے لیے یہ وقت کیوں چنا گیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ آیا اس واقعہ سے کسی اور کو کوئی پیغام پہنچانا مقصود تھا۔

سوال تو اور بھی بہت ہیں، لیکن ان سب سوالوں کا جواب ایک ہی ہے کہ اغواکار نامعلوم ہیں اور کبھی پکڑے نہیں جائیں گے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG