رسائی کے لنکس

’پارلیمنٹ کے پاس نا اہلی کا فیصلہ ختم کرنے کا اختیار نہیں رہا‘


پاکستان سپریم کورٹ، فائل فوٹو
پاکستان سپریم کورٹ، فائل فوٹو

پاکستان سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62(1)ایف کے تحت نااہلی کا کی مدت کی تشریح کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کی مدت کو تا حیات قرار دیا ہے۔

اعلیٰ عدالت کے فیصلے اور اس کے دور رس نتائج پر وائس آف امریکہ کے اردو ریڈیو پروگرام جہاں رنگ میں میزبان قمر عباس جعفری نے آئینی اور قانونی ماہر ذالفقار بھٹہ ۔ فافن کے مسرور باری۔ سیاسی تجزیہ کار سلمان عابد، وفاقی وزیر دانیال عزیز اور پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی سلیم رحمان سے گفتگو کی۔

ذوالفقار بھٹہ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ اب نااہل قرار دیئے جانے والوں کے پاس کیا آپشنز ہیں تو انہوں نے کہا وہ لوگ ریویو میں جا سکتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر ان کے پاس زیادہ متبادل نہیں ہیں۔

جب سرور باری سے سوال کیا گیا کہ کیا پارلیمنٹ میں اکثریت کے ذریعے یا آئینی ترمیم کرکے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ جسٹس عظمت سعید نے فیصلے میں اضافی نوٹ لکھا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس ایک موقع تھا جب اس نے اٹھارویں ترمیم کی یا اس کے بعد 2017 الیکشن ایکٹ منظور کیا جا رہا تھا اس وقت اسے تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اب پارلیمنٹ کے پاس کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ وہ اس فیصلے کو بدل سکے۔

سرور باری نے کہا کہ پابندی چونکہ تا حیات ہے ۔ اس لیے ممکن ہے کہ اگلی پارلیمنٹ آ کر ان شقوں کو تبدیل کردے یا ان میں ترمیم کردے۔ لیکن اس کا امکان زیادہ نہیں ہے۔

سلمان عابد سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اس فیصلے کا پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر کیا اثر پڑے گا تو ان کا کہنا تھا کہ سیاسی منظر نامے پر اس لئے اثر نہیں پڑے گا کہ اب جبکہ یہ معاملہ طے ہوگیا ہے تو بات صرف شریف اور ترین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کی زد میں مستقبل میں الیکشن لڑنے کی خواہش رکھنے والے امیدوار اور بیشتر سیاست دان بھی آ سکتے ہیں اور اب ایک اصول بن گیا ہے جس کو بنیاد بناکر بہت سے سابقہ اور موجودہ قانون سازوں کو اس کا ہدف بنایا جا سکتاہے۔

وفاقی وزیر دانیا ل عزیز سے سوال کیا گیا کہ لیڈر آف اپوزیشن خورشید شاہ نے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس آرٹیکل کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا یہ وہی آرٹیکل ہے جو ضیاء الحق لائے تھے اور اس وقت نواز شریف سے کہا گیا تھا کہ وہ اسے تبدیل کرنے کے لیے ساتھ دیں لیکن وہ اس پر تیار نہ ہوئے ۔ اب آپ اس بارے میں کیا کہیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی چیز کا غلط استعمال، خواہ نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو ، آخر کار وہ تباہی پر منتج ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا نواز شریف کو سزا دینے کے لئے دوہرے معیار اپنائے گئے۔ ایک قانون تبدیل کرکے نہ صرف ا ن کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹایا گیا بلکہ اس کیس میں انہیں تا حیات نا اہل بھی قرار دیا گیا تو سوال یہ ہے کہ کتنی بار یہ نواز شریف کو نا اہل کریں گے۔

سلیم رحمان نے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ بڑوں کے خلاف فیصلہ آیا ہے۔ ان کی پارٹی اس کی مکمل تائید اور حمایت کرتی ہے۔ ہر چند کہ اس میں خود تحریک انصاف کے ایک راہنما بھی ہدف بنے ہیں جن کا کیس بالکل مختلف تھا۔ انہوں کہا یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ عوام کو 70برس کے بعد تبدیلی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ ان کی پارٹی عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے۔

مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔

نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تا حیات نااہلی
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:07 0:00

XS
SM
MD
LG