رسائی کے لنکس

کیا پتہ ہم جہنم میں رہ رہے ہوں؟


چین میں پچھلے ہفتے مسلسل نویں دن درجہ حرارت 95 ڈگری فارن ہائیٹ سے تجاوز کر گیا، جبکہ بدھ کو درجہ حرارت 106 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچنے کے بعد شہریوں کو ہدایت کی گئی کہ دھوپ میں نہ نکلیں
چین میں پچھلے ہفتے مسلسل نویں دن درجہ حرارت 95 ڈگری فارن ہائیٹ سے تجاوز کر گیا، جبکہ بدھ کو درجہ حرارت 106 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچنے کے بعد شہریوں کو ہدایت کی گئی کہ دھوپ میں نہ نکلیں

'کیا پتہ قیامت گزر چکی ہو اور ہم جہنم میں رہ رہے ہوں ؟', پاکستان میں کئی سوشل میڈیا صفحات پر موجود یہ دلچسپ فقرہ معروف مصنف مستنصر حسین تارڑسے منسوب ہے۔ مستنصر حسین تارڑ سیاح ہیں ، لکھاری ہیں، لیکن کیا وہ ماہر ماحولیات بھی ہیں؟ یہ سوال ذہن میں اس لئے ابھر رہا ہے کیونکہ زمین کا درجہ حرارت گزشتہ چند دنوں سے زیادہ سے زیادہ کی جس حد کو چھو رہا ہے، اس کی وجہ سے ماحولیات اور موسمیات کے کئی ماہرین بھی اس سے ملتی جلتی باتیں ہی کر رہے ہیں۔

تازہ ترین اندازہ یہ سامنے آیا ہے کہ ہماری اور آپ کی اس زمین کا درجۂ حرارت بدھ کو مسلسل تیسرے روز بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہا، جبکہ منگل کو کرہ ارض کے مختلف خطوں میں رہنے والوں نے 44سالوں کا گرم ترین درجہ حرارت برداشت کیا۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف مین کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق شعبے کے مطابق منگل اور بدھ کو زمین کا اوسط درجۂ حرارت 17.18 سیلسئس ( یعنی 62.9فارن ہائیٹ )ریکارڈ کیا گیا۔

امریکی یونیورسٹی کا یہ اندازہ اس وقت سامنے آیا ہے، جب شمالی بحر اوقیانو س کے درجہ حرارت میں بےحد اضافہ ، اینٹارکٹیکا یعنی بحر منجمد جنوبی پر برف کی تہہ میں انتہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے، اور سائینس دانوں سے مشورہ کریں تو وہ کندھے اچکا کر کہہ سکتے ہیں کہ ایسا تو ہم نے پہلے بھی کئی بار بتایا تھا۔ وہ حکومتوں کو شدید موسمی حالات سے نمٹنے کے لئے تیار رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

بیجنگ کی ایک گزرگاہ پر دھوپ سے بچ کر چلنے کا اہتمام کرتے شہری ۔ فوٹو رائٹرز
بیجنگ کی ایک گزرگاہ پر دھوپ سے بچ کر چلنے کا اہتمام کرتے شہری ۔ فوٹو رائٹرز

کئی ماہرین پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دو ہزار تیئیس میں بلند درجۂ حرارت کے کئی نئے ریکارڈ قائم ہوسکتے ہیں۔

امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے کلائیمیٹ سائینٹسٹ کرس فیلڈ ، جو یونیورسٹی آف مین کے اس مطالعے کا حصہ نہیں ہیں، کہتے ہیں کہ درجہ حرارت کے ایسے انتہائی ریکارڈ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ماحولیاتی حدت میں اضافہ ہمیں گرم ترین دنوں کی طرف دھکیل رہا ہے۔

بدھ کے روز امریکہ میں اڑتیس ملین افراد موسمیاتی اداروں کی طرف سے کسی نہ کسی قسم کی ہیٹ ایڈوائزری کے زیر اثر تھے۔ اس سے قبل پیر کو زمین کا اوسط درجۂ حرارت 17.01 ڈگری سینٹی گریڈ ، یعنی 62.8 ڈگری فارن ہائیٹ ہونے پر اسے تاریخ کا گرم ترین دن قرار دیا گیا تھا۔

،بھارت میں پریا گراج میں ایک بندر کی پیاس بجھانے کی ناکام کوشش فوٹو اے ایف پی
،بھارت میں پریا گراج میں ایک بندر کی پیاس بجھانے کی ناکام کوشش فوٹو اے ایف پی

یونیورسٹی آف مین ،کلائیمیٹ ری اینےلائزر ، نام کا ، ایک آلہ استعمال کرتی ہے ، جو سیٹلائٹ ڈیٹا اور کمپیوٹر سمولیشن کے ذریعے دنیا کے درجہء حرارت کی پیمائش کرتا ہے۔

سائنس دان عام طور پر زمین کی گرمی کو ماپنے کے لیے مہینوں، سالوں اور دہائیوں کے درجہء حرارت کو پیش نظر رکھتے ہیں ، لیکن ماحولیاتی حدت کی روزانہ بلند ہوتی شرح اس بات کا اشارہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا کے درجہ حرارت کو کہاں تک لے جائیگی۔

امریکی ادارے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کی چیف سائنسدان سارہ کپنک کہتی ہیں کہ بڑھتی ہوئی حدت سمندروں کے درجہ حرارت کی وجہ سے ہے ۔ ان کے مطابق پچھلے اور اس ہفتے کے ٹمپریچرز کوئی سرکاری اعدا دو شمار نہیں ، لیکن یہ ہمیں اس بات کا اشارہ دے رہےہیں کہ ہم اس وقت کہاں لھڑے ہیں ۔

سائنسدان ، مہینوں سے متنبہ کر رہے ہیں ، کہ 2023 میں موسمیاتی تبدیلی کے طور پر ریکارڈ گرمی ہو گی ۔ ایسا امکان اس لئے ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئلہ، قدرتی گیس اور تیل جیسے فوسل ایندھن کے جلنے سے پیدا ہونےو الی آلودگی کم نہیں ہو رہی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم سخت دھوپ میں پریکٹس کے دوران (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم سخت دھوپ میں پریکٹس کے دوران (فوٹو اے ایف پی)

مختلف ملکوں میں صورتحال مختلف ہے؟

چین میں پچھلے ہفتے مسلسل نویں دن درجہ حرارت 35 ڈگری سیلسیس (95 ڈگری فارن ہائیٹ) سے تجاوز کر گیا، اور بدھ کو جب درجہ حرارت 41 ڈگری سیلسیس (106 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا تو تمام بیرونی کاموں کو روکنے کا حکم دیا گیا۔

ایک ماہر تعلیم اور قطب شمالی اور جنوبی کی معلومات رکھنے والے ،چاری وجےارگھوان، پچھلے دس سالوں سے آرکٹک اور انٹارکٹک ، کا باقاعدگی سے دورہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں قطبوں پر گلوبل وارمنگ واضح ہے، اور اس سے خطے کی جنگلی حیات کے ساتھ ساتھ برف پگھلنے کا بھی خطرہ ہے جو سمندر کی سطح بلند کردے گی

وجےاراگھون نے کہا، "گرم آب و ہوا ایویئن فلو جیسی بیماریوں کے خطرات بڑھانےکا باعث بن سکتی ہے ، جبکہ اس سے خطے میں پینگوئن اور دیگر حیوانات کے لیے تباہ کن نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں یورپ کے علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر ہانس ہنری پی کلوج نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی براعظم یورپ پر بڑی شدت سے اثرانداز ہو رہی ہے اور اس کا قوی امکان ہے کہ ، موسموں کی تبدیلی کے اثرات دور رس اور ہلاکت خیز ہوں ۔ ممکن ہے صحت عامہ کی دنیا میں 50 سال میں جو ترقی ہوئی ہے،اسے بھی نقصان پہنچے ۔

اقوام متحدہ کے اینوائرنمنٹ پروگرام کے ڈائریکٹر انگر اینڈرسن کہتے ہیں کہ ہر ریکارڈ توڑنے کے لئے نہیں ہوتا ۔ دنیا کے ہر کونے میں لوگ گرمی کی شدید لہروں سے نبرد آزما ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ہم سائینس کو اپنے اپنے انداز میں نظر انداز کرنا پسند کرتے ہیں ، لیکن ماحول کی حدت کم کرنے کے اقدامات میں غفلت کا نتیجہ انہیں بھگتنا پڑتا ہے، جو سب سے کم آمدنی رکھنے والے اور سب سے کمزور ہیں'، یعنی پاکستان اور ترقی پذیر دنیا کے کچھ ایسے ملک، جن کا ماحول کی حدت بڑھانے میں کوئی خاص کردار نہیں۔

واضح رہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے کئی حصوں میں رواں سال جون کے مہینے میں کئی دنوں تک قیامت خیز گرمی کی لہر آئی ۔ دونوں ممالک میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے ۔ گزشتہ ہفتے مون سون کی بارشیں شروع ہونے کے بعد ،درجہ حرارت میں کسی حد تک کمی آئی اور لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔رواں ہفتہ، چین ، امریکہ، کینیڈا ، جرمنی، برطانیہ اور دنیاکے ان ملکوں میں بھی انتہائی بلند درجہ حرارت ریکارڈ کئے گئے، جہاں موسم گرما میں کبھی پنکھا یا اے سی چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

(خبر کا کچھ مواد اے ایف پی اور اے پی سے لیا گیاہے )

XS
SM
MD
LG