رسائی کے لنکس

مصر میں پارلیمانی انتخابات اور اخوان المسلمین کا مستقبل


مصر میں پارلیمانی انتخابات اور اخوان المسلمین کا مستقبل
مصر میں پارلیمانی انتخابات اور اخوان المسلمین کا مستقبل

توقع ہے کہ اس سال کے آخر میں ، مصر میں پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔ انتخابات کی تاریخ جیسے جیسے قریب آ رہی ہے، ان قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے کہ ملک کی سب سےزیادہ منظم جماعت، اخوان المسلمین ، جس پر ایک طویل عرصے سے پابندی لگی ہوئی تھی، کتنی نشستیں حاصل کر سکے گی۔

مارچ میں جب انقلاب کے بعد کے سیاسی منصوبے پر ووٹنگ ہوئی، تو مصریوں کی ریکارڈ تعداد نے ووٹ ڈالے ۔ چند مہینوں بعد مصری ایک بار پھر ووٹ ڈالیں گے۔ اس بار وہ ایک نئی پارلیمینٹ کا انتخاب کریں گے ۔ یہ ووٹنگ خاص طور سے اہم ہوگی کیوں کہ نئی پارلیمینٹ ملک کے لیے نئے آئین کا مسودہ تیار کرے گی۔

صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹے جانے کے دوران اور اس کے بعد سے اب تک، ملک میں 25 سے زیادہ سیاسی گروپ سامنے آئے ہیں ۔اب یہ گروپ سیاسی پارٹیاں بنانے میں مصروف ہیں تا کہ وہ انتخابی مقابلے میں حصہ لے سکیں۔ لیکن اخوان المسلمین ایک ملک گیر تنظیم ہے اور اس نے پہلے ہی اپنی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کو رجسٹر کرا لیا ہے ۔ اس پارٹی کے نائب چیئر مین اعصام العریان کہتے ہیں’’ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پارٹی 30 سے 35 فیصد تک نشستیں حاصل کر لے ۔ دوسرے انتخابی اتحادیوں کے ساتھ مل کر، ہماری کوشش ہے کہ ہم اکثریت حاصل کر لیں۔ اس طرح ہمارا سیاسی اتحاد نہ صرف وزیر ِ اعظم بلکہ پوری کابینہ کو نامزد کر سکے گا۔‘‘

بعض لوگوں کے لیے یہ تشویشناک بات ہے، خاص طور سے نئے مصر میں عورتوں کے حقوق اور اسلامی شریعت کے رول کے حوالے سے۔ لیکن العریان کہتے ہیں کہ اس قسم کی کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیئے ۔’’مجموعی طور سے، شریعت ، طرزِ زندگی کا نام ہے ۔ یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے اختیار کریں یا نہ کریں۔ اسے قانون کے ذریعے مسلط نہیں کیا جاتا۔ یہ اپنے اپنے مذہب کا معاملہ ہے۔‘‘

العریان کہتے ہیں کہ مصریوں کا شمار دنیا کے ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے لیے مذہب بہت اہم ہے ۔ لیکن ممتاز صحافی ہشام قاسم کہتے ہیں کہ اگر یہ صحیح ہو، تو بھی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ اس بنیاد پر آپ کو ووٹ بھی دیں گے۔’’سیاسی اعتبار سے اب ووٹ اس لیے نہیں دیا جائے گا کہ آپ راستبازی اور پرہیزگار ی کے ذریعےمجھے مذہبی بنا کر میری زندگی کو یا ملک کو بہتر بنا دیں گے ۔ لوگ اب تفصیلات جاننا چاہتے ہیں۔‘‘

قاسم کہتے ہیں کہ مسٹر مبارک کے رخصت ہونے کے بعد، اخوان المسلین میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ اخوان اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔قاسم مزید کہتے ہیں کہ ماضی میں اسلام پسندوں کو مبارک کی مخالفت میں ووٹ ملا کرتے تھے، لیکن اب وہ ووٹ ختم ہو چکےہیں۔’’ان حالات میں، اور ماضی میں ان کے ارکان اور امید واروں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے، وہ دس فیصد سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘

لیکن مصری تجزیہ کاروں کی اکثریت قاسم سے متفق نہیں۔ مصر کی سیاست میں طویل عرصے سے سرگرم پروفیسر سعد الدین ابراہیم کو توقع ہے کہ اخوان المسلمین مکمل طور سے اتنی کامیابی حاصل کر لیں گے جتنی وہ کہہ رہے ہیں۔’’کم از کم اگلے چار سال تک، وہ ملک کے سیاسی منظر پر چھائے رہیں گے۔‘‘

مصر میں پارلیمانی انتخابات اور اخوان المسلمین کا مستقبل
مصر میں پارلیمانی انتخابات اور اخوان المسلمین کا مستقبل

لیکن پروفیسر ابراہیم کو اس سلسلے میں کوئی خاص تشویش نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اخوان نے حالیہ عشروں کے دوران، اپنے نظریات میں اعتدال پیدا کر لیا ہے۔ اگرچہ ہو سکتا ہے کہ وہ مصر کے انقلابی جذبے کو اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرنا چاہے، لیکن اس کے لیڈر جانتےہیں کہ ایک جمہوری پارلیمینٹ میں انہیں دوسرے گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔’’یہ شعور بڑھتا جا رہا ہے کہ بعض گروپ اس انقلاب کو ہائی جیک کر سکتےہیں، یعنی اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کر سکتےہیں، اور اس لیے ہر کوئی اس الزام سے انکار کر رہا ہے، یعنی کوئَی بھی ہائی جیکر بننا نہیں چاہتا۔ یہ اچھی علامت ہے ۔‘‘

اگلے چند مہینوں میں بہت سی سیاسی پارٹیاں مصر کے انتخابات میں مقابلہ کر رہی ہوں گی۔ اس طرح کسی ایک پارٹی کے لیے سیاسی منظر پر پوری طرح غلبہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا اگرچہ مصر کے قدیم ترین اور سب سے اچھی طرح منظم گروپ کی حیثیت سے ، اخوان المسلین ، اور اس کے اتحادی ، ایسی کوشش کریں گے ضرور۔

XS
SM
MD
LG