رسائی کے لنکس

مصر: مستقل حقوق کے حصول کے لیے خواتین کی کوششیں


Supporters of cleric Tahirul Qadri chant anti-government slogans, Islamabad, Pakistan, January 14, 2013.
Supporters of cleric Tahirul Qadri chant anti-government slogans, Islamabad, Pakistan, January 14, 2013.

مصر میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سال کے شروع میں جو انقلاب آیا تھا، اس کے نتیجے میں عورتوں کو زیادہ حقوق حاصل ہوں گے ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ امکان تو یہی ہے، لیکن جیسا کہ ہر نئی جمہوریت میں ہوتا ہے، یہ عمل آسان نہیں ہوگا۔

جنوری اور فروری میں جن احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں سابق حکومت کا خاتمہ ہوا، ان میں عورتوں نے بھی شرکت کی تھی۔ اور ابھی حال ہی میں موجودہ عبوری حکومت پر پارلیمانی انتخابات اور نئے آئین کے سلسلے میں دباؤ ڈالنے کے لیئے جو مظاہرے ہوئے ہیں، اور دھرنے دیے گئے ہیں، ان میں بھی عورتوں نے حصہ لیا۔

ان مردوں اور عورتوں کے مقاصد ایک جیسے تھے ، یعنی سابق حکومت کا تختہ الٹنا اور حقیقی جمہوریت قائم کرنا۔ لیکن بعض ایسی عورتیں بھی تھیں جن کے مقاصد خاص عورتوں سے متعلق تھے ۔ ان میں ایک سرکاری ملازم، حبیبہ درویش محمد شامل تھیں۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمینٹ میں عورتوں کے لیے نشستیں مخصوص ہونی چاہئیں اور انہیں پورے حقوق اور آزادی ملنی چاہیئے۔ انہیں خوف و ہراس سے نجات ملنی چاہیئے اور طلاق اور بچوں کی تحویل کے بارے میں برابر کے حقوق ملنے چاہئیں۔

سنٹر فار ایجپشین وومن پندرہ برس سے زیادہ عرصے سے ان حقوق کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ ازا سلیمان اس سنٹر کے بانیوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’لمبی مدت کے لیے، نئے آئین میں عورتوں کا درجہ مردوں کے برابر ہونا چاہیئے، اور اس میں مردوں اور عورتوں دونوں کے حقوق کی حفاظت کی جانی چاہیئے۔‘‘

لیکن یہ کہنا آسان ہے اور کرنا مشکل۔مارچ میں ، مصریوں نے ایک نئی پارلیمینٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا جو اس موسمِ خزاں میں منتخب ہوگی اور نیا آئین تحریر کرے گی۔

توقع ہے کہ اخوان المسلمین کی نئی سیاسی پارٹی اس عمل میں اہم، بلکہ شاید سب سے نمایاں کردار ادا کرے گی۔ اس پارٹی کے نائب چیئر مین، اعصام الاریان کہتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کی حیثیت مردوں کے برابر ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس اصول کی توجیہ میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔’’اسلامی قانون پر عمل در آمد ہر معاشرے میں الگ الگ ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ کچھ ایسے ملکوں میں بھی جن کی مغرب ہمیشہ حمایت کرتا ہے، عورتوں کو گاڑی ڈرائیو کرنے سے بھی روکا جاتا ہے۔‘‘

اس قسم کی گفتگو ازا سلیمان جیسی خواتین کے لیے تشویش کا باعث ہے جو عورتوں کے حقوق کے لیے جدو جہد کر ر ہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’جہاں تک انصاف، برابری اور سماجی انصاف جیسی اقدار کا تعلق ہے، ان کے بارے میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں۔ لیکن ان اصطلاحات سے لوگوں کی کیا مراد ہے، اس بارے میں لوگوں میں اختلاف ہے۔ عورتوں کی ضرورتیں بھی مختلف سماجی اور اقتصادی حالات میں مختلف ہوتی ہیں۔‘‘

ازا سلیمان کہتی ہیں کہ مصر میں ایک طویل مدت کے منصوبے کی ضرور ت ہے جس میں مردوں اور عورتوں دونوں کو ہر ایک کے حقوق کی اہمیت کے بارے میں تعلیم دی جائے۔’’یہ بالکل ممکن ہے کہ کچھ مرد اپنے گھرانوں کی عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے ، یا ان کے ووٹوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے آگہی اور روشن خیالی دونوں اہم ہیں۔ جمہوری تبدیلی آنے میں وقت لگے گا۔‘‘

قاہرہ اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر جو عورتیں احتجاج کے لیے نکلی تھیں، انھوں نے اس کام کی ابتدا کی تھی۔ لیکن سلیمان اور حقوق کی جدو جہد میں شامل دوسری عورتیں یہ بات مانتی ہیں اس کام کو برسوں جاری رکھنا ہو گا۔

XS
SM
MD
LG