رسائی کے لنکس

مصر میں انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا


مصر میں انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا
مصر میں انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا

احتجاج کرنے والے لاکھوں مصریوں نے فروری میں صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا۔ اگرچہ یہ تبدیلی بہت اہم تھی، لیکن بہت سے مصریوں کی نظر میں یہ محض ابتدا تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اب تک جو اصلاحات ہوئی ہیں وہ ناکافی ہیں۔

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران لاکھوں مصری قاہرہ کے تحریر اسکوائر اور مظاہروں کے دوسرے مقامات پر واپس چلے گئے ہیں۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پولیس فورس میں اصلاحات کی جائیں، اعلیٰ سرکاری عہدے داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، اور جو لوگ ان مظاہرین کی موت کے ذمہ دار ہیں جن کی مدد سے حسنی مبارک کا تختہ الٹا گیا، ان پر تیزی سے مقدمے چلائے جائیں۔

عبوری حکومت نے بعض اقدامات کیے ہیں۔ وزارتِ داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ 600 سے زیادہ اعلیٰ پولیس افسروں کو بر طرف کر دیا جائے گا۔ لیکن تحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ نا کافی ہیں اور ان کی رفتار سست ہے۔

’’یہ خاتون کہہ رہی ہیں کہ میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ مجھے کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی۔ ملٹری کونسل نے مصر کی سیاسی زندگی کو کرپٹ کر دیا ہے۔‘‘

’’یہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہم نے 25 جنوری کو جو کام شروع کیا تھا، ہمیں اسے مکمل کرنا چاہیئے۔ 25 جنوری کو جب ہم آئے تھے، اور ہم نے جو کچھ دیکھا تھا، ہمیں وہ سب بدل دینا چاہیئے۔‘‘

’’ان صاحب کا خیال ہے کہ صرف چہرے بدلے ہیں۔ صحیح معنوں میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی جس سے میں اور میرے ساتھی مطمئن ہو سکیں۔‘‘

انگریزی اخبار ڈیلی نیوز ایجپٹ کی چیف ایڈیٹر رانیا المالکی کہتی ہیں کہ ملک میں جو نئے احتجاج شروع ہوئے ہیں، ان سے اس بنیادی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ لوگوں کو حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’وزیرِ داخلہ نے ان مطالبات کو پورا کرنے کے لیے بعض بیانات دیے تھے لیکن لوگوں نے انہیں سننا چھوڑ دیا کیوں کہ ان کا خیال ہے جو کچھ ہورہا ہے وہ بہت کم ہے اور بہت سست رفتاری سے ہو رہا ہے ۔ ‘‘

مصر میں انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا
مصر میں انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا

تحریر اسکوائر میں یہ جذبہ صاف نظر آتا ہے۔ یہاں لوگوں کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ جن پولیس افسروں پر احتجاج کرنے والوں کو ہلاک کرنے کا الزام ہے، ان پر مقدمہ نہیں چلایا گیا ہے، اور بعض کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ یہ نوجوان کہتے ہیں کہ ’’ہمیں اب تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ بہت سے لوگ، تقریباً 300 افراد، نے اپنی جانیں دی ہیں۔ آخر انہیں کسی نے تو ہلاک کیا ہے۔ باہر کی دنیا کو ایسا لگتا ہے کہ یہاں ہر ہفتے، جمعے کے روز احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے لیے، یہ روز کا معمول ہے۔ انھوں نے عہد کیا ہے کہ جب تک وہ انقلاب کے دوران ہلاک ہونے والے لوگوں کے لیے انصاف حاصل نہیں کر لیتے، وہ یہاں سے نہیں جائیں گے، اور یہیں خیموں میں رہتے رہیں گے۔‘‘

مصر میں انقلاب، مبارک کے ایک دیرینہ مخالف، پروفیسر سعد الدین ابراہیم کا زندگی بھر کا خواب تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ لنگڑا کر اس لیے چلتےہیں کیوں کہ مبارک کے دور میں انھوں نے جیل میں تین سال صرف کیے اور اس دوران انھیں روزانہ اذیتیں دی جاتی تھیں۔ ابراہیم کہتے ہیں کہ احتجاجوں کا پھر سے شروع ہو جانا اچھی بات ہے ، انھوں نے کہا کہ ’’مصریوں کے دل سے خوف نکل گیا ہے اور اگر حالات ان کی مرضی کے مطابق طے نہیں پاتے، تو وہ پھر گھروں سے نکل آئَیں گے، اور صرف تحریر اسکوائر ہی نہیں بلکہ مصر کے تمام بڑے شہروں کے چوک ان سے بھر جائیں گے۔‘‘

بلکہ مظاہرین نے یہ سلسلہ پہلے ہی شروع کر دیا ہے اور الیگزینڈریا کے شہر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیکن ایک مصری صحافی کو تشویش ہے کہ کئی عشروں کے جبر و استبداد کے بعد، بہت سے لوگ عجلت میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں کیوں کہ وہ نہیں جانتے کہ اپنے مقاصد سیاسی عمل کے ذریعے کیسے حاصل کریں۔ لیکن صحیح یا غلط، مصریوں کی کوشش ہے کہ جنوری میں انھوں نے جو ڈرامائی تبدیلی حاصل کی تھی اس کے نتیجے میں ایسی حقیقی اصلاحات ہوں جو وہ چاہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG