رسائی کے لنکس

مارگلہ ہلز پر کاروباری سرگرمیاں: 'مونال ریسٹورنٹ ایکو سسٹم کی بحالی میں بڑی رکاوٹ تھا'


ماہرینِ ماحولیات کے مطابق اسلام آباد نیشنل پارک کی مینجمنٹ 1979 کے آرڈیننس کے مطابق ہونی چاہیے جس میں یہ واضح تھا کہ نیشنل پارک کے تمام تر معاملات اسلام آباد کے وائلڈ لائف مینیجمنٹ کے اختیار میں آتے ہیں۔ (فائل فوٹو)
ماہرینِ ماحولیات کے مطابق اسلام آباد نیشنل پارک کی مینجمنٹ 1979 کے آرڈیننس کے مطابق ہونی چاہیے جس میں یہ واضح تھا کہ نیشنل پارک کے تمام تر معاملات اسلام آباد کے وائلڈ لائف مینیجمنٹ کے اختیار میں آتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے رواں ہفتے ہی وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کو مارگلہ کی پہاڑیوں پر قائم مونال ریسٹورنٹ کو سیل کرنے، نیوی گالف کورس کو تحویل میں لینے اور ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کے نیشنل پارک کی آٹھ ہزار ایکڑ اراضی پر دعوے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

دوسری جانب ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ مونال ریسٹورنٹ سمیت دیگر تجاوزات کے باعث نیشنل پارک میں قدرتی حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا۔ اب توقع ہے کہ یہ معاملات آہستہ آہستہ درست سمت میں واپس آ جائیں گی۔

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ میں بطور ممبر کام کرنے والے وقار زکریا کا کہنا ہے کہ مارگلہ نیشنل پارک کی حالت جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی، گندگی اور تجاوزات کی وجہ سے بہت خراب ہے جب کہ انتظامیہ کچھ بھی نہیں کر رہی تھی جس کے بعد جنگلی حیات کے تحفظ میں دلچسپی لینے والے افراد میں سے کچھ نے 2014 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وقار زکریا نے بتایا کہ اس حوالے سے ان سمیت چند دیگر افراد نے قانون دیکھا تو اس میں یہ واضح تھا کہ اسلام آباد نیشنل پارک کی انتظامیہ 1979 کے آرڈیننس کے مطابق ہونی چاہیے جس میں یہ واضح تھا کہ نیشنل پارک کے تمام تر معاملات اسلام آباد کے وائلڈ لائف مینجمنٹ کے اختیار میں آتے ہیں۔

ان کے مطابق بنیادی مسئلہ یہ درپیش تھا کہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کا بنیادی کام سڑکیں، پُل، ہاؤسنگ سوسائٹیز کو اس طرح فروغ دینا اور تعمیر کرنا تھا جس سے ایک قدرتی علاقے کو اپنی درست حالت میں رکھا جا سکے۔

ان کے مطابق سی ڈی اے کے حکام نے اسے بس ایک زمین کا ٹکڑا سمجھا اور اس میں پارک، ہوٹل اور سڑکیں بنانا شروع کر دیں۔ اسی سوچ کے تحت عین نیشنل پارک کے وسط اور بلندی پر مونال اور دیگر ہوٹل کھولنے کے اجازت نامے جاری کیے گئے اور کسی بھی قسم کی تجاوزات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ماحولیات کے تحفظ کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔

نیشنل پارک شہر کے وسط میں واقع ہے اس لیے وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پُر عزم ہیں کہ یہ فطرت اور جنگلی حیات کا مسکن رہے جس سے لوگ بھی لطف اندوز ہو سکیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں ملٹری گراس فارمز کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا جس کے تحت انھیں 1910 میں آٹھ ہزار ایکڑ زمین گھوڑوں کی خوراک اور گھاس کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔

وقار زکریا کے مطابق عدالت نے واضح طور اپنے فیصلے میں ریمارکس دیے ہیں کہ اب جب کہ ملٹری فارمز بند ہو چکے ہیں تو اس زمین کو وفاقی حکومت ہی دیکھے گی اور 1979 کے آرڈیننس کے تحت اب اس کے تمام معاملات وائلڈ لائف مینجنٹ بورڈ کے پاس ہوں گے۔

خیال رہے کہ مارگلہ نیشنل ہلز پارک 17 ہزار 386 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے جہاں نایاب جانوروں سمیت درختوں کی کئی اقسام موجود ہیں۔

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے مینیجر آپریشنز سخاوت علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسلام آباد میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا علاقہ ٹیکسلا سے بارہ کہو کے درمیان ہے جسے کوہ ہمالیہ رینج بھی کہا جاتا ہے اور یہ سارے کا سارا پروٹیکٹڈ علاقہ ہے۔

ان کے مطابق نیشنل پارک میں پودوں اور جانوروں کے ساتھ ساتھ یہاں کی مٹی، نمی، درجۂ حرارت، پہاڑ، پتھر سب مل کر جان دار اور بے جان اشیا کا تعلق بناتا ہے اور یہ سب مل کر ایک ایکو سسٹم بناتے ہیں۔

وقار زکریا گزشتہ 35 برس سے ماحولیات کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد وہ اس حوالے سے ایک جامع پلان بھی تیار کر رہے ہیں۔

مونال ریسٹورنٹ کے سیل ہونے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دراصل ماحول کے تحفظ کی جب بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلی ترجیح وہاں پائے جانے والے جانور، زمین، پودے، آلودگی اور پانی کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے مونال ریسٹورنٹ اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔

انہوں نے واضح کیا کہ پہاڑ کی چوٹی پر قائم ہونے کی وجہ سے اس جانب بے ہنگم ٹریفک صبح شام رواں دواں ہوتی تھی۔ شور اور آلودگی کے باعث جنگلی حیات کافی مشکلات کا شکار تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ تھی کہ مونال ریسٹورنٹ کو ایک مختصر سی جگہ دی گئی تھی البتہ انھوں نے بیٹھنے کی جگہ اور ٹیرس کو مہمانوں کے لیے بہت زیادہ بڑھا دیا تھا جو کہ سرا سر غیر قانونی عمل تھا جس کو دیکھ کر مزید تجاوزات بھی قائم ہوئیں۔

وقار زکریا نے واضح کیا کہ وہ مارگلہ ہلز پر ریسٹورنٹ کے قیام کے خلاف نہیں ہیں۔ تاہم ان کی تعداد اور سائز اتنا بڑا نہ ہو کہ اس کا اثر ماحول پر پڑے۔ اس حوالے سے چیک اینڈ بیلنس ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب یہ بلڈنگ بورڈ کے پاس واپس آ گئی ہے تو بورڈ میٹنگ میں یہ معاملہ زیرِ بحث آئے گا کہ اس کا کیا مناسب استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کو سیاحوں کے لیے سینٹر، پارکنگ، دفاتر یا ویو پوائنٹ کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں ماہرِ ماحولیات پروفیسر زیڈ بی مرزا نے ایک اور حکومتی منصوبہ 'مارگلہ ایونیو' کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ پروفیسر زیڈ بی مرزا کے مطابق یہ چار رویہ سڑک جو کہ جی ٹی روڈ کو بارہ کہو سے ملائے گی 1960 میں بنائے گئے اسلام آباد ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ 1980 کے عشرے سے پہلے مارگلہ کے اوپر سے کوئی پکی سڑک نہیں گزرتی تھی۔ ایک پکی سڑک اوپر کی جانب جاتی تھی جو کہ دامن کوہ پر آ کر ختم ہو جاتی تھی۔ جب کہ اس کے آگے صرف جیپ ہی جا سکتی تھی۔

ان کے مطابق 2000 کے اوائل میں ایک دفعہ جنرل پرویز مشرف، جو کہ اس وقت چیف ایگزیٹو تھے کو پیر سوہاوہ دیکھنے کا شوق ہوا۔ تو ایک مختصر ترین مدت میں دو رویہ سڑک پکی کر دی گئی۔ اسٹریٹ لائٹس بھی لگ گئیں اور اس طرح مارگلہ کے اوپر تک لوگوں کی رسائی شروع ہو گئی۔ جہاں سے مارگلہ ہلز نیشنل پارک مزید آلودہ ہونا شروع ہوا۔

پروفیسر زیڈ بی مرزا کا کہنا تھا کہ جب موٹر وے بنی تو اس کے اردگرد باڑ لگائی گئی۔ جس کے بعد اوڑیال کی آبادی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اور دونوں اطراف کے جنگلی حیات اپنی اپنی سمت میں محدود ہو کر رہ گئے اور وہی کچھ مارگلہ نیشنل ہلز میں بھی ہوا کیوں کہ سڑک بن جانے کے بعد جانور محصور ہو کر رہ گئے۔

انھوں نے واضح کیا کہ نیشنل پارک میں صرف تین قسم کے کام ہو سکتے ہیں۔ وہاں لوگ سیر و تفریح کے لیے جا سکتے ہیں۔ دوسرا کچھ علاقہ تحقیق اور آگہی کے لیے مختص کیا جاتا ہے جبکہ تیسرا نو گو ایریا قرار دیا جاتا ہے۔

تجاوزات کس طرح کے مسائل کا باعث بنتی ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:50 0:00

ماہر ماحولیات کے مطابق نیشنل پارک میں اب ایک تیندوے کے جوڑے کو دیکھا گیا ہے۔ اس لیے اب وہاں 'لیپرڈ ریزرو' زون بھی بنا دیا گیا ہے جہاں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کیوں کہ پہلی مرتبہ تیندوے یہاں رہنا شروع ہوئے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ اس سے ان کی افزائش شروع ہو جائے گی جس یہ بات سامنے آتی ہے کہ تیندوے کے لیے وافر مقدار میں خوراک موجود ہے۔

پروفیسر زید بی مرزا کہتے ہیں کہ جب وہ 1950 کے عشرے میں سائنسی تحقیق کے لیے یہاں آتے تھے اور مقامی لوگوں سے بندروں اور تیندوے کے بارے میں پوچھتے تھے تو ان کا کہنا ہوتا تھا کہ کبھی کبھار بندر نظر آ جاتے ہیں اور جب گلیات میں برف باری زیادہ ہو جاتی تھی تو تیندوے بھی اس طرف کا رُخ کر لیتے تھے۔ اب یہاں بندر بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور کوڑا کرکٹ کی وجہ سے بندر اب مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے ساتھ ملحقہ آبادی میں بھی جانا شروع ہو گئے ہیں۔

انھوں نے خبردار کیا کہ بندروں کے کنٹرول کے لیے ضروری ہے کہ تیندووں کی نسل کو بچایا جائے۔ کیوں کہ اسلام آباد میں بندروں کے انسانوں پر حملے اور کاٹنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں اور تحقیق کے مطابق بندروں کے کاٹنے سے بھی ریبیز ہو جاتی ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان میں نہ تو ان پر کوئی تحقیق ہو رہی ہے۔ نہ کوئی دوا دستیاب ہے اور نہ ہی دوا درآمد ہو رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل پارک تعلیم، تحقیق، آگہی اور تفریح کے تحفظ کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ تاکہ جو قدرت ہم دیکھ رہے ہیں وہ ہماری آنے والی نسلیں بھی دیکھ سکیں۔

XS
SM
MD
LG