رسائی کے لنکس

کیا گھڑی کا مبینہ خریدار سامنے آنے کے بعد عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے؟


توشہ خانہ سے ملنے والی قیمتی گھڑی کا مبینہ خریدار سامنے آنے پر پاکستان میں یہ بحث جاری ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف اس معاملے پر قانونی کارروائی ہو سکتی ہے یا نہیں؟

بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تفصیلات کے سامنے آنے سے عمران خان کے خلاف پہلے سے جاری توشہ خانہ ریفرنس میں کریمنل کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وفاقی تفتیشی ادارہ (ایف آئی اے) یا قومی احتساب بیورو (نیب) چاہیں تو کارروائی کر سکتے ہیں کہ کم قیمت پر تحائف حاصل کر کے مہنگے داموں فروخت کیے گئے۔

لیکن بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے کا سیاسی اثر تو ہو سکتا ہے لیکن قانونی طور پر ان تحائف کی فروخت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ دبئی میں مقیم پاکستانی نژاد تاجر عمر فاروق ظہور نے 'جیو نیوز' کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے عمران خان کو سعودی عرب کے شاہی خاندان سے ملنے والے تحائف اصل قیمت سے کم پر خریدے۔

تحائف خریدنے کے حوالے سےعمر فاروق ظہور نے دعویٰ کیا تھا کہ ان تحائف میں موجود گھڑی دنیا کا واحد پیس ہے جو انہوں نے خریدا تھا۔ ان کے دعوے کے بقول اس سیٹ کی مارکیٹ کی قیمت ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر تک کی تھی جو انہوں نے 20 لاکھ ڈالر میں خریدا۔

نئی تفصیلات کا توشہ خانہ ریفرنس پر کوئی اثر ہوگا؟

نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں سامنے آنے والے نئے ثبوت اب تک صرف میڈیا کے پاس ہیں، اب تک وہ کسی تحقیقاتی ادارے کے پاس موجود نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں جو فیصلہ آیا تھا اس میں فوج داری کارروائی کے لیے عدالت کی طرف سے سیشن جج کو کیس بھجوایا جائے گا۔

عمران شفیق کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے صرف وہی کیس بھجوایا جائے گا جس میں اب تک الیکشن کمیشن نے تمام ثبوت اور دستاویزات کی بنیاد پر فیصلہ سنایا تھا۔

اُن کے بقول اگر کسی مزید ثبوت کا اضافہ کرنا ہے تو الیکشن کمیشن کے سامنے اگر کوئی شخص یا ادارہ ثبوت فراہم کرے گا تو ان ثبوتوں پر غور کے بعد اور کسی تفتیشی ادارے سے تفتیش کے بعد انہیں ریکارڈ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔

عمران شفیق کہتے ہیں کہ نجی ٹی وی کے پروگرام میں جو ثبوت پیش کیے گئے وہ بہت مستند نظر آرہے ہیں لیکن فی الحال ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر نیب یا ایف آئی اے متحرک ہوکر اس شخص کے بیانات اور اس سے ثبوت حاصل کرے تو اس کے بعد ہی کارروائی ہوسکتی ہے۔

سابق پراسیکیوٹر راجہ عامر عباس ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف توشہ خان ریفرنس میں کریمنل کیس یہ ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف فروخت کرکے حاصل کرنے والی رقم کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔اس بارے میں جو تفصیلات انہوں نے الیکشن کمیشن کو جمع کروائی ان میں غلط بیانی کی گئی۔

اُن کے بقول اس بات کا الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ وہ ان تحائف کی قیمت یا فروخت کے حوالے سے کوئی کارروائی کرسکے۔ ان کا اختیار صرف اتنا ہے کہ وہ مس ڈیکلریشن پر کارروائی کرے۔

راجہ عامر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان کی اثاثوں کی دی گئی تفصیلات سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے انہیں موجودہ پارلیمان کی بقیہ مدت کے لئے نااہل قرار دیا گیا اور تفصیلات چھپانے پر ان کے خلاف کریمنل کارروائی کے لیے معاملہ سیشن جج کو بھجوایا جا رہا ہے۔

اُن کے بقول کیوں کہ اب یہ معاملہ ہائی کورٹ میں چلا گیا ہے اور وہاں اگر حکم امتناع دے دیا جائے تو کیس سیشن کورٹ میں بھی نہیں چل سکتا۔ اگر کیس چلا بھی تو صرف اس حد تک ہوگا کہ انہوں نے تفصیلات چھپائیں اور اگلے سال میں ظاہر کر دیں تو اس سے بھی عمران خان کے خلاف کیس پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔

ایف آئی اے یا نیب کیا کرسکتے ہیں؟

اس سوال پر کہ کیا سیشن جج نئے ثبوتوں کے لیے ایف آئی اے یا نیب کو مزید انکوائری کا کہہ سکتے ہیں؟عمران شفیق کا کہنا تھا کہ سیشن جج کو ایف آئی اے یا نیب کو ہدایت دینے کا اختیار تو نہیں ہے لیکن وہ پولیس سے اس معاملے کی تفتیش کا کہہ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس جو ریکارڈ ہے وہ الیکشن ایکٹ کے مطابق اسے سیشن جج کے پاس ہی بھجوا سکتے ہیں۔ اگر کمیشن چاہے تو ایف آئی اے سے تحقیق کروا سکتا ہے۔

راجہ عامر عباس کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے اپنے اختیار کے مطابق ریفرنس آنے کے بعد مختلف بینکوں اور ایف آئی اے سے ریکارڈ منگوایا تھا۔ یہ معاملہ اگر پہلے آتا تو اسی ریفرنس کے ساتھ بھجوایا جاسکتا تھا۔ اب یہ ریکارڈ مکمل ہوچکا ہے اور نئے آنے والے ثبوت اضافی شہادت ہیں اور اگر الیکشن کمیشن چاہے تو سیشن جج کو درخواست دے سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر نیب اور ایف آئی اے خود چاہیں تو اس پر نیا کیس درج کرکے کارروائی کرسکتے ہیں۔

راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ تحائف کے بارے میں موجودہ تفصیلات سامنے آنے کے بعد صرف نیب کو کارروائی کا اختیار ہے۔ لیکن اس میں بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر انہوں نے ایک چیز خرید کر آگے فروخت کردی ہے تو ان کا اختیار ہے وہ کسی بھی چیز کو ایک روپے میں بیچیں یا پھر ایک کروڑ روپے میں فروخت کریں۔ اس معاملہ کا سیاسی پہلو تو ہوسکتا ہے لیکن اس پر قانونی کارروائی کوئی نہیں بنتی۔

'نواز شریف کا پاناما کیس اور عمران خان کا توشہ خانہ کیس ایک جیسے ہیں'

عمران شفیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ عمران خان کے حوالے سے توشہ خانہ ریفرنس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا جو فیصلہ آیا ہے وہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ جو سول رائٹس یا پولیٹکل رائٹس سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ کریمنل کارروائی کے حوالے سے ہے۔

اُن کے بقول اسی وجہ سے الیکشن کمیشن نے پہلے حصے کا استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو نااہل قرا ردیا ہے۔ انہیں نااہل قرار دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس تھا جس کا انہوں نے استعمال کیا۔ دوسرے حصے کے مطابق ان کے خلاف فوج داری کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن معاملہ سیشن جج کو بھیجے گا جو اس حوالے سے تمام ثبوت اور دستاویزات دیکھنے کے بعد اگر متفق ہو تو عمران خان کو سزا سنا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ویسا ہی کیس ہے جیسے سابق وزیرِاعظم نوازشریف کا تھا جس میں پاناما کیس میں عدالت عظمیٰ نے انہیں تاحیات نااہل قرار دیا اور فوج داری کارروائی کے لیے ان کے خلاف کیس نیب عدالت کو بھیجا گیا۔

ہتک عزت کا کیس کہاں دائر ہوگا؟

عمران خان کی طرف سے اس کیس میں ہتک عزت کا کیس دائر کرنے کے حوالے سے عمران شفیق نے کہا کہ ہتک عزت کیس میں سیشن جج کے پاس اختیار ہے کہ وہ کیس دائر کرنے کی صورت میں ڈیفی میشن آرڈیننس کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی طرف سے نوٹسز جاری کرے۔

اُن کے بقول شواہد ہونے کی صورت میں بدنام کرنے والے شخص کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس میں باقاعدہ خبر چلانے والے ادارے کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت پولیس کو شواہد جمع کرنے کو کہہ سکتی ہے۔


توشہ خانہ کے افسران کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے؟

راجہ عامر عباس کہتے ہیں کہ توشہ خانہ کے تحائف ایک سال کے بعد آکشن کردیے جاتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے جس شخص کو تحفہ ملتا ہے اس کا حق تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے خریدنے کی پیش کش کی جاتی ہے۔ اگر وہ شخص اس رقم کی ادائیگی کے حوالے سےمنی ٹریل فراہم نہ کرسکے تو مسئلہ ہوسکتا ہے ۔

اُن کے بقول ماضی میں آصف علی زرداری کے خلاف گاڑی خریداری میں کیس اس وجہ سے بنا تھا کہ اس گاڑی کی قیمت کسی اور شخص نے ادا کی تھی۔ لیکن اس معاملے میں عمران خان کی طرف سے یہ رقم ادا کی گئی ہے لہذا میرے خیال میں کوئی کریمنل کیس نہیں بن سکتا۔

انہوں نے کہا کہ نئی تفصیلات جو سامنے آئی ہیں اس پر کارروائی براہ راست عمران خان کے خلاف ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے کیوں کہ مبینہ خریدار نے تسلیم کیا کہ اس نے تھرڈ پارٹی کے ذریعے یعنی فرح خان کے ذریعے گھڑی خریدی ہے لہذا عمران خان کے خلاف اس بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

XS
SM
MD
LG